بدھ کی رات فیملی ڈنر میں مصروف رہے ،ٹی وی کی خبروں اور سوشل میڈیا کے سیلابی ریلوں سے ذرا دور وقت گزرا ،خبر نہیں ہوئی کہ اتنی سی دیر میں شہر کا شہر ہی بے یقینی کے سراب میں الجھا ایک عذاب سے دو چار نظر آیا۔راستے میں پٹرول پمپوں پر گاڑیوں موٹرسائیکلوں اور رکشوں کی طویل قطاریں نظر آئیں۔ کہیں تو جزوی طور پر رستے بلاک ہو چکے تھے۔پریشان حال لوگ پٹرول لینے کے لیے انتظار کے عذاب سے دوچار تھے۔پاکستان پٹرولیم ایسوسی ایشن کی ہڑتال کے اعلان کے بعد یہ صورت حال تھی کہ لوگ اپنی اپنی گاڑیاں موٹرسائیکل اور رکشہ کے لئے پٹرول پمپوں پر جمع تھے ظاہر ہے ایک افراتفری کا عالم تھا۔ حکومتوں کی نااہلی اور ریاست کی رٹ کے کمزور ہونے سے رفتہ رفتہ یہاں کئی قسم کے پریشر گروپ وجود میں آ چکے ہیں۔زوال یہ ہے کہ اساتذہ کو اور نابینا افراد کو بھی اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے دھرنے دینے پڑتے ہیں یعنی ایک پریشر گروپ کی صورت اختیار کرنی پڑتی ہے۔رفتہ رفتہ کئی قسم کے پریشر گروپ وجود میں آ چکے ہیں جو اپنے مطالبات کے لیے لیے کاروبار زندگی کو کسی حد تک معطل کر کے اپنے وجود کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں اور اگر آپ خوش قسمتی سے پٹرول پمپ والے پریشر گروپ ہیں تو پھر آپ نے صرف اپنے پٹرول بند کرنے ہیں ،پاکستان خود بخود بند ہو جائے گا۔لوگ رل جائیں گے عام آدمی کی چیخیں نکل جائیں گی۔ ٹی وی چینل پر آپ کے پیکج اور خبریں چل گئیں تو حکومت کے کارپردازوں کی توجہ آپ پر پڑے گی۔سو پٹرول پمپ والے پریشر گروپ پاکستان پٹرولیم ایسوسی ایشن نے یہی ہڑتال والا جان لیوا ٹوٹکا لگایا۔بھاڑ میں گیا پورا پاکستان بھاڑ میں گئے لوگ اور ان کی زندگیاں ! زندگی پٹرول سے رواں دواں ہے پٹرول نہیں ملے گا تو ٹریفک رک جائیگی چیزوں کی ترسیل نہیں ہوسکے گی۔بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو جائے گی۔اور ان سے جڑی لاکھوں کروڑوں زندگیاں مشکل میں آجائیں گی اور یہی ہوا لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور لوگ رل کے رہ گئے ۔ پرسوں رات سے صبح تک یہی صورت حال رہی۔ ابھی ایک چینل پر رپورٹ دیکھ رہی تھی ایک رکشہ ڈرائیور روہانسا ہو کر بولا کہ پٹرول نہیں ملے گا تو دیہاڑی کیسے کروں گا۔ اگر آج دیہاڑی نہیں کی تو گھر کس منہ سے جاؤں گا ۔بچے بھوکے ہیں تو کیا کھلاؤں گا؟یہ صرف ایک رکشہ ڈرائیور کی کہانی نہیں، لاکھوں رکشہ ڈرائیوروں اور دیہاڑی دار مزدوروں کی یہی صورتحال ہے۔ ایک سکول کا طالب علم احتجاج کرتے ہوئے بولا یوں لگا کہ ابھی رو پڑے گا۔میں اس نوجوان طالبعلم کو دیکھ کر عجیب دکھ سے دوچار ہوئی۔ ہم نے اس نسل کو کیسا پاکستان دیا؟ اس نسل کی قسمت میں کیسے بے سمت رہنما آئے۔ہاں اسی عمر میں جب میں تھی تو وطن کے مسائل پر بہت سوچا کرتی بہت کڑھتی تھی۔ عمر کا وہ دور سنہر ی خوابوں سے مزین ہوتا ہے۔ ہر نوجوان طالب علم ایک محفوظ اور خوبصورت مستقبل کی سوچ لیے کاسنی خوابوں کی دھند میں راستہ طے کرتاہے میں بھی ایسی ہی تھی۔ایک خواب تھا کہ شاید حالات سدھر جائیں گے تھوڑی بہت تک بندی زمانہ طالب علمی میں شروع کر دی تھی۔اسی دور کی عکاس یہ مختصر سی نظم ہے یہ میرے عہد کا سانحہ ہے رہبروں کا ہجوم قافلے کو لے کر راہ فرار پر رواں دواں ہے میں نے اس طالبعلم کو کندھے پر بیگ ڈالے ہوئے اس قدر روہانسا دیکھا تو میرے اندر رائیگانی کا عجب احساس ہوا۔ جیسے کچھ خالی ہو گیا ہو جیسے اتنے برسوںمیں کچھ ہاتھ نہیں آیا، جیسے خواب تعبیر کی صورت دیکھے بغیر بکھر گئے ہوں۔سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے ،ریاست کے قانون کی عمل داری کیوں نظر نہیں آرہی۔پچھلے دنوں ایک ھرنے میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہیں۔آج نہیں تو کل کوئی تو لکھے گا کہ اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے کس نے کس کو مروایا مفادات کی اس لڑائی میں میں عوام بری طرح ذلیل و خوار ہوئے۔اپنے فرض کی ادائیگی میں چار پولس اہلکاروں کی قیمتی جانیں چلی گئیں۔ان چار پولیس اہلکاروں کا خون ہر اس اہل اقتدار اور اہل اختیار کے سر پر ہوگا جو حالات کو سنبھال سکتا تھا مگر ہٹ دھرمی کی بنا پر حالات کو بگڑنے دیا۔ دھرنے والوں کے سینکڑوں کارکن زخمی ہوئے۔ دانش اور حکمت سے عاری اہل اقتدار کے فیصلوں سے اپنے ہی ہم وطن سڑکوں پر ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار نظر آئے۔اور پھر ایک پراسرار معاہدے کے تحت دونوں آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔اگر حل مذاکرات میں ہی ہے تو پھر حالات کے بگڑنے سے پہلے ہی ذمہ داران مسئلے کا حل کیوں نہیں نکالتے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کہ ابھی حکومت اور پٹرول مالکان کے درمیان ڈیڈ لاک ہے۔ ایمبولینسوں میں پٹرول ختم ہوگیا ہے،ایمرجنسی کی صورت حال ہے لیکن ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ ابھی تک معاملہ لٹکا ہوا ہے ،ہر بار عوام کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے، سو اب بھی انہیں ہی تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ کہانی کا اختتام اس کھیل کے اسٹیک ہولڈرز کے لئے اس صورت میں ہوگا۔ پٹرول پمپ مالکان اپنے مطالبات منوا لیں گے۔پٹرول کی قیمتوں میں ناجائز حد تک اضافہ حکومت اس احتجاج کے کھاتے میں ڈال کر عوام اور آئی ایم ایف کے سامنے سرخرو ہو جائے گی۔ عوام کا کیا ہے اس کا تو حال ہی یہ ہے کہ’ پولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے‘ سو عام آدمی مزید پولے کھانے کے لیے تیار رہے۔