ہرسال ستمبر کے آخری عشرے میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیویارک میںمنعقد ہوا کرتاہے اوراقوم متحدہ سے وابستہ تمام رکن ممالک کے سربراہان مملکت یہاں آکر تقاریر داغ دیتے ہیں جبکہ غریب ممالک کے سربراہان حکومت اس ’’دیوار گریہ‘‘ کے ساتھ کھڑے ہو کراپنی بپتا سناتے ہیں۔کشمیر پر بھی صدر اردوغان نے تقریرکر ڈالی لیکن پہلے ہی کی طرح انکی صدا اس بار بھی صدا بصحرا ثابت ہوگی کیونکہ اقوام متحدہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے سے کلی طورلاتعلق ہوچکا ہے اوراس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے ۔ گزشتہ سات دہائیوں سے مظلوم کشمیریوں کی طرف سے سری نگراورمظفر آباد میں قائم اقوام متحدہ کے مبصرین کے دفاتر،اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے کمشنرآفس میں ہزارہا میمورنڈم جمع کرائے جاچکے ہیںجن میں اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیرسے متعلق اپنی ذمہ دارایاں نبھانے ،کشمیریوں کوان کاحق استصواب رائے دلانے پر زور دیا گیا ۔ مسئلہ کشمیر کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے مگر اقوام متحدہ کا کردارخاموش تماشائی سے زیادہ نہیں ۔ اقوام متحدہ کے اس کرداروعمل سے بھارت کوشہہ ملی اوروہ کشمیر پراپنا ناجائزہ قبضہ مضبوط کرتاچلاگیا ۔کشمیریوں کو انسان نہیں بلکہ حشرات الارض سمجھ کر غیرانسانی ، ظالمانہ سلوک جاری رکھے ہے ۔ ہربار پیش کردہ میمورنڈم میں واضح طور پر لکھاگیاکہ بھارتی قابض فوج کے ہاتھوں (CASO ) کی آڑ میں کشمیری عوام کے خلاف خونین آپریشن کے دوران عوام کی جان املاک کو تباہ کرنا ایک مسلسل عمل بن گیا ہے۔یہاںیک طرفہ جنگ جیسی صورتحال پائی جاتی ہے ۔ میمورنڈمز میں واضح طورپر لکھاگیاکہ عالمی ادارے کی عدم توجہی نے درندہ صفت بھارتی قابض ا فواج کو حوصلہ بخشا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کشمیری قتل و غارت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بھارتی قابض فوج نہتے کشمیریوں کے خلاف بلٹ اور پیلٹ کا اندھا دھند استعمال کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان جغرافیائی حدود کا تنازع نہیں بلکہ یہ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ عوام کو ان کابنیادی حق ،استصواب رائے کاحق دینے کا مسئلہ ہے اوریہ کہ یہ مسئلہ طے شدہ فریم ورک کے ساتھ حل کیاجائے تاکہ کشمیری مسلمانوں کو مزید قتل ہونے سے بچایا جا سکے۔ اقوام متحدہ کو لکھا گیاکہ وہ اپنے اعلیٰ عہدے داروں کو مقبوضہ کشمیر بھیجے تاکہ وہ بچشم خودکشمیریوں کی صورتحال کودیکھ سکیں۔ ان ہزارہا مکتوبات میں لکھاجاچکاہے کہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق 5جنوری 1949ء کی قرارداد اہم دستاویز کے طور پرموجود ہے۔یہ قراردادیںاہل کشمیر کے حافظے کی لوح پر ایک بھیانک یاد کے طور پر سوالیہ نشان بن کر محفوظ ہیں۔ ان میمورنڈم میں واضح طور پرکہا گیاکہ المیہ یہ ہے کہ مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ریفرنڈیم کا حق دینے والے کشمیر کو اسی ادارے کے تحت دئیے گئے حق پر عملدر آمد کے مرحلے کو شرمناک طریقے سے بائی پاس کر رہے ہیں۔ امریکہ اور بعض دوسری طاقتیںاس سازش میں مصروف ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو کسی تہہ خانے کی نظر کر دیا جائے ۔ اس کے لئے امریکہ کا کشمیر کے حوالے سے منافقانہ کردار ہے اوراس کی سر پرستی میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا سلسلہ کئی برس سے جاری رہا اور ایسے ممکنہ طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے جن پر عمل کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا معاملہ گول کر دیا جائے ۔ مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کشمیر کے لئے سازش ،دیوار برلن کی ٹوٹ پھوٹ میں دلچسپی اور دیوار برہمن کے دوام کے لئے حیلے بہانے ‘ تیل کے کنوئوں کے لئے طاقت اور انسانی خون کے لئے مصلحت‘‘ اقوام متحدہ اور امریکیوں کی یہی معاندانہ روشن ، منافقت اور دہرا معیار ہر مقام پر مسلمانوں میں اس کے خلاف رد عمل پیدا کر رہا ہے۔ بلکہ اقوام متحدہ کی (Credibility) بھی ختم ہوتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کا اس ادارے سے کلی طور پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ یہ ادارہ محض امریکی مقاصد کو آگے بڑھانے کے سوا کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ اسی دہرے معیارکے باعث مغرب اور مسلمان ہر جگہ متصادم نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کئی مرتبہ ا قوام متحدہ نے کشمیر میں انسانی حقوق سے متعلق اپنی رپورٹیں جاری کیں۔مگربس اتنا ہی کافی نہیں کیونکہ مسئلہ کی سنگینی اس سے کہیں بڑھ کراقدام اٹھانے اورتنازع حل کرنے کاتقاضہ کرتی ہے۔ (Leauge of Nations)کے نام سے ایک عالمی تنظیم جنگ عظیم دوئم کی بھڑکنے والی آگ میں بھسم ہو چکی تھی۔ اقوام عالم نے (League of Nations)کو اس وقت تاریخ کی قبر میں دفن کر دیا جب یہ طے ہو چکا تھا کہ جو عالمی تنظیم ایک ایسی عالمی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس نے انسانوں اور انسانیت کو موت، تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا اپنے وجود کا جواز نہیں رکھتی۔ (League of Nations )کی راکھ پر ہی( United Nations) کے نام سے ایک نئی تنظیم کا تاج محل اس امید کے ساتھ تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جو دنیا کو جنگوں ، بھوک ، افلاس ، جہالت، بیماریوں سے بچائے گی ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ اب دنیاکوجنگوں کی بھینٹ نہیں چڑنے دیا جائے گااورکسی کویہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ لاٹھی کی بنیاد پر دوسروں کے حق کو تلف کرے ۔لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار نے اس ادارے کے وجود، ساکھ اور (Credibility)کے آگے ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی آج تک کی پوری تاریخ کھنگالیں تو معلوم ہو گا کہ اقوام متحدہ کا مسلمانوں کے خلاف تیار کردہ سازشوںمیں کتنا بڑاعمل دخل رہا ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے اس ادارے نے کس طرح ہمیشہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے ۔جبر پر مبنی ایسے اصول اور قاعدے مسلمانوں پر مسلط کر دئیے گئے جن سے یہ صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ادارہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کیلئے سر گرم ہے۔ اقوام متحدہ کی اپنی ہی تاریخ اس امر پرشاہد ہے کہ اس نے ہمیشہ یہود و نصاریٰ اورہنود کی حمایت تو کی لیکن مسلمانوں کے معاملے میں وہ اندھا اور بہرا ہے ۔اسے مسلمانوں کی تکلیف اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سنائی دیتا ہے نہ نظر آتا ہے ۔ مسلم معاشروں میں یہ سوچ بڑی شدت سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ انہیں اقوام متحدہ سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔ یہ ادارہ ان کے نزدیک امریکہ اور اسکے اتحادیوںکے ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے جو مسلم دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔