سطح مرتفع اناطولیہ کے دل میں ، ’’قونیہ‘‘ کا معروف اوربابرکت شہر، جوانقرہ سے 260کلو میٹر جنوب کی سمت میںواقع ہے ، یہ شہر کبھی انسانی تہذیب کا گہوارہ اور سلجوک حکمرانوں کا پایۂ تخت تھا۔تیرہویں صدی کے ابتدائی نصف میں اپنے تہذیبی اور تمدنی کمال کے سبب عروج کا حامل تھا ۔ خوبصورت مساجد ، عظیم الشان مدارس اور فقید المثال خانقاہیں، اس شہر کی عظیم تعمیرات کا اہم حصہ تھیں ۔ لیکن سطوت اور اقبال مندی کے اس دور میں، قونیہ کی تاریخی اور فکری حیثیت پر ، مولانا رومی کی آمد نے وہ مُہر باطنی ثبت کی ،جس نے اس قرئیے کو لافانی بنا دیا ۔اس اولو العزم اور جلیل القدر ہستی کو ترکی میں ’’میولانا‘‘(Mevlana) کے نام سے جانا جاتا ہے، ہزاروں عقید ت مند روزانہ آپ کے مزار پر حاضری دیتے اور قلب ونظر کی ضیاء پاتے ہیں ۔ مقام مسرّت ۔۔۔ کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے حالیہ دورئہ ترکی کے موقع پر، سب سے پہلے قونیہ میں مولانا روم کے مزار پر حاضری دیکر، اپنی محبتوں کا نذرانہ پیش کیا۔ مولانا روم کی خانقاہ میں ، ان کے چند خاص احباب کی قبروں میں ،ایک قبر، ان کے مریدِ خاص ، علامہ اقبال کی ہے ،جو خود کو ’’مرید ہندی‘‘اور حضرت مولانا روم کو ’’پیر رومی‘‘ سے موسوم کرتے ہیں ،یہ قبرعلامتی طورپر بنائی گئی ہے ، جس کی لوحِ مزار پر یہ تحریر درج ہے:۔ "This position was given to Muhammad Iqbal, a National Poet and Philosopher of Pakistan, in the spiritual presence of his beloved Mavlana." علامہ اقبال کامولانا روم سے خصوصی تعلق اور لگائو تھا، جس کے سبب مولانا روم کے پہلو میں یہ خاص مقام ،1965ء میں ، مولانا روم کمیٹی کی طرف سے ، آپ کے لیے مختص ہوا۔ علامہ اقبال اور مولانا روم کے درمیان اگرچہ کم وبیش چھ صدیاں حائل ہیں ، تاہم وہ اکثر امور اور معاملات میں ہم خیال اور علمی ، فکری اور روحانی طور پر ایک دوسرے سے بے حد قریب ہیں ، اس نظریاتی اور فکری مماثلت نے زمان ومکان کی وسعتوں کو سمیٹ کر، انہیں مرید ہندی اور پیر رومی کے رُوپ میں ملّت کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ علامہ اقبال کاایک اسلوبِ سخن یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مَن کی بات خود براہِ راست کہنے کی بجائے، دوسرے کے منہ میں ڈال دیتے ہیں ،پورا جاوید نامہ اسی اندازِ بیان اور طرزِ تدریس سے عبارت ہے ۔ مولانا روم ہی کا ارشاد ہے ۔ خوشتراں باشد کہ سرِّ دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں ’’پیر رومی ۔ مرید ہندی‘‘کے عنوان سے اقبال کی معروف نظم ، جو 58اشعار پر مشتمل ہے ، میں علامہ اقبال کے 32اور مولانا روم کے 26اشعار ہیں، جن میں اسلامی تعلیمات ،اخلاقیات ،معاشرت ،تہذہب وتمدن ،عقل وعشق ، روح وبدن ، علوم وفنون ، عصر حاضر ،عروج وزوال ، مسلمانوں کی دین سے بے اعتنائی ، دل کی بیداری ، خود ی کی بلندی ، مِلّی زندگی کا استحکام ، فلسفہ وتصوّف ، مغرب زدگی سمیت ایسے مسائل اورموضوعات، جن سے آج بھی اُمت اور قوم دوچار ہے ، پر اقبال نے اپنا نقطہ نظر ۔۔۔اور مولانا روم کے مخصوص علمی وباطنی تصوّرات سے راہنمائی اور اخذِ فیض کیا ہے ۔ خوشی کی بات ہے کہ پاکستانی وفد نے حضرت اقبالؒ کے اس مقام ِخاص پر بھی حاضری دی، شاید کہ قبر اقبالؒ سے آج بھی یہ آواز آرہی ہوگی کہ جب اقوام او ر افراد باطل نظریات کو حق سمجھ کر اپنا لیتے ہیں ، تو وہ زوال پذیر ہوجاتے ہیں ۔ قونیہ میں ہی ، مولانا روم کے مزار سے کچھ ہی فاصلے پر آپ کے اُستاد اور عالمِ اسلام کی ممتاز ومعتبر شخصیت مولانا شمس تبریز کا مزار اقدس ہے : قدرے چھوٹے ،مختصر ،خاموش اور پُر سکون احاطے میں ۔۔۔ زائرین کی تعدا د بہت زیادہ نہیں ہوتی ۔ قونیہ جانے والے۔۔۔ صرف مولانا روم تک رسائی کے خواہاں ہوتے ،بہت کم شمس تبریز کی حاضری سے بہر ہ مند ہوتے ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ جلال الدین رومی کو ’’مولانا روم‘‘ جس ہستی نے بنایا وہ یہی شمس تبریز ہیں، جن کے بارے میں مولانا روم کہتے ہیں : مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم تا غلامِ شمس تبریز نہ شُد ابتداً مولانا روم پر ظاہری علوم کا غلبہ تھا، درس وتدریس میں مصروف رہتے ،وعظ کہتے ، فتویٰ لکھتے اور سماع سے احتراز کرتے ۔ حضرت شمس تبریزؒ آپ کی زندگی میں داخل ہوئے ، توآپ کی زندگی کا نقشہ ہی بدل گیا۔ معروف روایت ہے کہ ایک دن آپ حوض کے کنارے تشریف فرما ، اور آپ کے گرد کتابوں کا انبار تھا ،شمس تبریز ادھر آنکلے اور پوچھا : یہ کیا ہے ؟ مولانا روم نے کہا یہ ’’ قیل وقال‘‘ ہے ،جس کا تمہیں علم نہیں ۔ شمس تبریز نے تمام کتابیں حوض میں ڈال دیں ، مولانا سخت رنجیدہ ہوئے اور کہا ،اے درویش، تم نے علم کے ایسے گوہر نایاب ضائع کردیئے ، جن کا حصول اب ناممکن ہے ۔ شمس تبریزؒ نے حوض میں ہاتھ ڈالا اور تما م کتابیں نکال کر اس طرح کنارے پر رکھیں کہ ان پر نمی کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ مولانا سخت متحیر ہوئے ، اور کہا یہ کیا ہے؟ شمس تبریزؒ نے کہا یہ ’’حال‘‘ہے ،جسے تم نہیں جانتے ، یہیں سے مولانا روم کی زندگی ایک عجیب انقلاب سے روشناس ہوئی ، شمس تبریزؒ نے مولانا رومؒ کے چہرے پر حق وحقیقت کی تجلّیات کو محسوس کرکے، ان کو اپنا مرید اور خودان کے روحانی پیشوا اور قائد بن گے ،مولانا رومؒ کو جو بے پایاں عقیدت ومحبت اپنے شیخ سے ہوئی، اس کا اظہار ان کے اشعار اور اقوال میں جا بجا ملتا ہے، بلکہ ادب کی دنیا میںیہ ایک منفرد واقعہ ہے کہ کسی شاگرد نے اپنا دیوان اور کلام اپنے استاد اور شیخ سے منسوب اور موسوم کرکے اس کا نام ہی ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘رکھ دیاہو۔ مولانا روم کا وصال 17دسمبر1273ء ، قونیہ میں ہوا ، اسی مناسبت سے آپ کا عرس دسمبر کے پہلے نصف میں منایا جاتا ہے ، دو سال قبل اس عر س میں حاضری کی سعادت سے بہر مند ہوا۔ مزار پر حاضری کے پُر کیف لمحات میں ’’نَے ‘‘یا بانسری کی مدھر سُرآپ کی طبیعت میں عجیب کیفیت اور گداز پیدا کردیتی ہے ۔ مزار کے اندر بانسری کی یہ دُھن ہلکی سُر اور آواز میںہر وقت، آپ کے ساتھ رہتی اور ایک روحانی سرشاری اور سیرابی عطا کرتے ہوئے ، یہ کہہ رہی ہوتی ہے : خشک مغز و خشک تار و خشک پوست ز کجامی آید ایں آوازِ دوست لمحہ موجود میں ، رومی کے روحانی تصورّات سے اخذِ فیض کے بغیر کوئی چارہ نہیں ، رومی ارتقا کا قائل ،خودی ،خودداری ، آزادی اور رواداری کا امین ،حقیقت کا متلاشی اور اصل کی طرف رجوع کی طلب اور تڑپ رکھتا ہے ۔ اسی میں صحیح انسانی ترقی کا راز پنہا ہے ۔