لاہور(سلیمان چودھری)پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمین اور ان کی فیملی کے علاج معالجے پر اخراجات کے میڈیکل کلیم کے حوالے سے رولز میں ترامیم کر دی ہیں ،سرکاری ملازمین کی جانب سے خود ساختہ طور پر پرائیوٹ ہسپتالوں سے علاج کروانے کے میڈیکل کلیم بل ادا نہیں ہوں گے ۔ ماسوائے انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں یا کسی بھی سرکاری ہسپتال سے باقاعدہ طور پر پرائیوٹ ہسپتال میں ریفر کرنے کے کیس کو ڈیل کیا جائے گا ۔ ایسے کیسز متعلقہ محکموں کی درخواست پر پروسس ہوں گے ، ایسے میڈیکل کلیم کے کیسز سپیشل میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوں گے ، سپیشل میڈیکل بورڈ کی سربراہی متعلقہ سرکاری میڈیکل کالج کا پرنسپل یا یونیورسٹی کا وائس چانسلر کرئے گا ، دیگر ممبران میں متعلقہ ہسپتال کا ایم ایس ، متعلقہ ہسپتال کا ڈائریکٹر فارمیسی ، متعلقہ بیماری کا ماہر پروفیسر ، کوئی اور ماہر اور جس ہسپتال سے ریفر ہوا وہاں کا نمائندہ شامل ہو گا۔سپیشل میڈیکل بورڈ سرکاری ملازم کے میڈیکل کلیم کے بل کا جائزہ ہوگا ، علاج کی خاطر مریض کو پرائیویٹ ہسپتال جانے کی وجوہات ، پیسوں کا تعین کرے گا۔ سپیشل میڈیکل بورڈ صرف متعلقہ محکمے کے سیکرٹری کی جانب سے وزیر اعلی پنجاب کے نام سمری پر ہی محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن تشکیل دے گا۔کیٹگری ون کے تحت ایسے سرکاری ملازم جن کا علاج معالجہ سرکاری ہسپتالوں میں ہوا وہ اس کیٹگری کے تحت میڈیکل کلیم کر سکیں گے ۔ متعلقہ محکمے کا سیکرٹری 15لاکھ تک بل منظور کر سکتا ہے اورکسی محکمے کے ماتحت خود مختار ادارے کا سربراہ 10لاکھ روپے تک اور معزز چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ 15لاکھ روپے تک کلیم کی منظوری دے سکتے ہیں ۔محکمہ صحت کے دونوں محکموں کے ملازمین کے میڈیکل کلیم کے بل جو کہ 15لاکھ سے زائد ہوں گے ان کے لیے سپیشل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے گا ۔ اسی طرح دیگر محکموں کے ملازمین جو کہ 15لاکھ تک یا اس سے زائد کے اخراجات کی منظوری محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن اور محکمہ خزانہ سے لازمی کروائیں گے ۔