بھاٹی گیٹ کے باہر، باغ میں عید قربان کے سلسلے میںقادر بخش ایک اُونٹ لیے کھڑا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر بکروں والے بھی گاہکوں کے اِنتظار میں تھے۔ اِتنے میں وہاں شاہ عالمی کا ایک تاجر، بکرا خریدنے کے لیے آیا تو اُس کی نظر اُونٹ پر پڑی جس کے پیٹ پر جلی حروف میں لکھا تھا ’’اُونٹ برائے اِجتماعی قربانی۔‘‘ تاجر نے یہ الفاظ پڑھے تو اُسے خیال آیا کہ اگر محلے والوں کو اِس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ دس دس ہزار روپے ڈال کر اُونٹ خرید لیں تو کم خرچ بالانشیں قسم کی قربانی ہو سکتی ہے کیونکہ اُونٹ ویسے بھی بالا نشیں ہوتا ہے۔ تا ہم اُس نے سوچا کہ اُونٹ خریدنے کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اُسے چیک کر لیا جائے ۔ اُس نے قاد ِر بخش سے بات کی تو اُس نے کہا: چودھری صاحب ! آپ جس طرح چاہیں، میرے سجن کو چک کرلیں ! ’’یہ سجّن کون ہے؟‘‘ تاجر نے ُپوچھا۔ ’’سجن میرے پیارے اُونٹ کا نام ہے!‘‘ ’’تم نے اِس کا نام سجن کیوں رکھا ہے؟‘‘ … تاجر نے سوال کیا ۔ ’’قربانی ہمیشہ سجناں دی د ِ ّتی جاندی اے!‘‘… اُس نے جواب میں کہا۔ تاجر کو فلسفیانہ باتوں میں کوئی د ِلچسپی نہیں تھی۔ اُس نے آگے بڑھ کر اُونٹ کو چیک کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو اُس نے اُونٹ کے پیٹ کو ٹھونک بجا کر دیکھا۔ اُونٹ کو اُس کی بے تکلفی پسند نہ آئی؛ تاہم بے مثال قو ّت ِ برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خاموش کھڑا رہا۔ تاجر نے سوچا، لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ اِس کے ُمنہ، میں دانت کتنے ہیں ۔اُونٹ نے اپنے دانتوں پر ہونٹوں کا رُومال ڈال رکھا تھا ۔ تاجر نے رُومال ہٹا کر، دانتوں کو بے پردہ کرنے کی کوشش کی تو اُونٹ کی رگ ِ َ ّحمیت پھڑک اُٹھی۔ اُس نے ُ ّغصے میں تاجر کے ہاتھ کی اُنگلیاں چبا ڈالیں۔ تاجر نے چیخ کر دہانِ ُ َشتر سے ہاتھ نکالا اَور اونٹ کو گالیاں اَور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہوا چل پڑا۔ پاس ہی بھاٹی گیٹ کا تھانہ تھا۔ وہ سیدھا وہاں پہنچا اَور محر ّر سے کہنے لگا: میں ایک اُونٹ کے خلاف غنڈہ گردی اَور اِرادۂ قتل کی رپورٹ درج کروانا چاہتا ہوں۔ محر ّر نے اُسے سمجھایا کہ رپورٹ درج کروانے اَور مقد ّمہ چلوانے کے لمبے ّچکر میں پڑنے سے کہیں بہتر ہے کہ اُونٹ کو پولیس مقابلے میں مروا دیا جائے۔ ُیوں تمھیں بہت کم پیسوں میں فوری اِنصاف مل جائے گا۔ اگر تم چاہو تو ہم اُونٹ کو تمھاری دہلیز پر لے جا کر پولیس مقابلے میں پار کر دیتے ہیں ! ’’کتنے پیسے لگیں گے؟‘‘ تاجر نے ُپوچھا۔ ’’اِنسان کو مارنے کے تو ہم لاکھوں روپے لیتے ہیں؛ لیکن یہ ایک ُمعصوم جانور کا سوال ہے ۔ ہم بہت کم پیسوں میں تمھارا کام کر دیں گے!‘‘ ’’کمال ہے… اُس خبیث نے میری اُنگلیاں چبا ڈالیں اَور تم اُسے ُمعصوم جانور کہہ رہے ہو!‘‘ تاجر نے احتجاج کیا۔ ’’دیکھو مسٹر! اُونٹ مجرم ہے یا ُمعصوم، ہمیں ایسی باتوں سے غرض نہیں ہوتی … تم صاف صاف بتائو، کیا چاہتے ہو… اَور جیب کو کس َحد تک ڈِھیلا کر سکتے ہو؟‘‘ ’’دیکھو منشی، میں نے کبھی حکومت کو ایک پیسے کا ٹیکس نہیں دیا، تمھیں کیا خاک دُوں گا! تم سیدھی طرح اُونٹ اَور اُس کے مالک کو گرفتار کر کے تھانے لائو، اُنھیں حوالات میں بند کرو اَور قانون کے مطابق کارروائی کرو!‘‘’’اُونٹ کے لیے حوالات ہمارے تھانے میں نہیں، شاہی قلعے میں ہے؛ اَور شاہی قلعہ، تھانہ ٹکسالی گیٹ کی ُ ُحدود میں ہے۔ تم اِس واقعے کی رپورٹ وہاں درج کروائو!‘‘ ’’واہ! وقوعہ تمھارے تھانے کا اور رپورٹ کسی اَور تھانے میں کروائوں! سیدھی طرح اُن دونوں کو گرفتار کر کے لے آئو، ورنہ یاد رکھو میری پہنچ بہت اُوپر تک ہے!‘‘ ’’ اُس اونٹ کی پہنچ بھی بہت اُوپر تک ہے۔‘‘ ’’مذاق میں بات مت ٹالو۔ اونٹ اور اُس کے مالک کے خلاف کارروائی کرو۔ ورنہ یاد رکھو انجمن تاجراں کا صدر میرے بہنوئی کا سالا ہے۔‘‘ ’’تمہارے بہنوئی کا سالا؟ وہ تو تم خود ہو۔‘‘ ’’اُس کی دوسری بیوی کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔تم ہمارے خاندانی معاملات میں دخل دینے کے بجائے جو میں کہہ رہا ہوں، کرو۔‘‘ ’’اچھا۔ میں اپنے افسروں سے مشورہ کرلوں۔ ‘‘ منشی نے اَندر جا کر اَپنے ایس ایچ او سے مشورہ کیا۔ فیصلہ ُہوا کہ قانون شکن اُونٹ اَور اُس کے مالک کو گرفتار کر کے، تھانے لایا جائے؛ پھر مالک کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جائے اَور اُونٹ کو راہِ ُخدا میںبیچ کر ثواب ِ دارین حاصل کیا جائے۔ چنانچہ فوری طور پر ایک پولیس پارٹی تشکیل دی گئی جو تھوڑی ہی دیر میں دونوں کوپکڑ کر تھانے لے آئی۔ اُونٹ کے مالک کو حوالات میں بند کر دیا گیا اَور اُونٹ کو صحن میں ایک طرف کھڑا کر دیا گیا۔ پہلے تو اُونٹ نے سمجھا کہ اُسے ایک معزز مہمان کا درجہ دے کر یہاں لایا گیا ہے؛ لیکن پولیس والوں کے طور طریقے دیکھ کر، اُسے شبہ ُہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اِتنے میں ایک مخولیے کانسٹیبل نے آگے بڑھ کر، اُونٹ سے کہا :اُونٹ رے اُونٹ، تیری کون سی کل سیدھی؟‘‘ اُونٹ جو کہ اِس ضربُ المثل کو سُن سُن کر پہلے ہی تنگ آیا ُہوا تھا، آپے سے باہر ہو گیا۔ ایک نعرہ ٔ مستانہ لگا کر اُس نے ر ّسی تڑوائی اَور مخولیے کانسٹیبل پر چڑھائی کر دی۔ کانسٹیبل کے ُمنہ سے ایک خوفناک چیخ نکلی اَور وہ گولی کی طرح تھانے سے باہر نکل گیا۔ اَب اُونٹ نے محر ّر کا رُخ کیا جو برآمدے میں کرسی میز لگائے بیٹھا تھا۔ اُس نے میز کو زور دار ٹکرماری تو میز اُچھل کر دیوار میں لگی اَور روزنامچہ پرندے کی طرح فضا میں اُڑنے لگا۔ ّ محرر کی پسلیوں میں میز کا کونا لگا جس سے اُس کی دوپسلیاں کریک ہو گئیں۔ تاہم وہ لانگ جمپ لگا کر، صحن میں آیا اَور ٹوٹی ُہوئی پسلیوں کے ساتھ اِتنی تیزی سے بھاگا کہ چشم زدن میں میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ کر ایک بستر پر جا ِگر ا۔ شور و غل اَور چیخ پکار سُن کر، چار پانچ پولیس والے ایس ایچ او کے کمرے سے برآمد ہوئے۔ اُونٹ نے اُنھیں دیکھا تو تیزی سے اُن کی طرف لپکا۔ َموت کو اَپنی طرف آتے دیکھ کر اُن کا رنگ فق ہو گیا اَور پھر جدھر کسی کے سینگ سمائے، اُدھر کو بھاگ لیا ۔اُونٹ نے ایک بھاگتے ہوئے اہل کار کو ّٹکر مار ی تو وہ کرکٹ کے بال کی طرح لڑھکتا اَور گھومتا ُہوا تھانے کی بائونڈری کراس کر گیا۔ َچوکا مارنے کے بعد اَب اُونٹ کو َ ّچھکا لگانے کی سُوجھی۔اِتفاق سے اُس کی نظر ایک سب انسپکٹر پر پڑگئی جو ایک درخت کی اوٹ میں اپنے موبائل فون پر ایمرجنسی پولیس کو مطلع کر رہا تھا۔ اُونٹ نے اُسے بھاگنے کا موقع دیے بغیر ایسی زبردست ِہٹ لگائی کہ وہ َہوا میں قلابازیاں کھاتا ُہوا عین بائونڈری لائن کے اُو پر جا کے ِگرا۔ خدا جانے َ ّچھکا ُہوا کہ َچوکا لیکن یہ ضرور ُہوا کہ سب اِنسپکٹر نظروں سے غائب ہو گیا ۔ اِس دَوران میں ایک اے ایس آئی، کمال بہادری اَور حا ِضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے، اُونٹ کی نظروں سے چھپتے چھپاتے، حوالات میں داخل ہو گیا اَور قادر بخش سے بولا: ’’ باہر نکل کر اُونٹ کو قابو کرو، ورنہ پولیس مقابلے کے لیے تیار ہو جائو!‘‘ قادر بخش نے حوالات سے باہر آکر، اَپنے مخصوص لہجے میں اُونٹ سے نہ جانے کیا کہا کہ وہ خرمستی سے باز آگیا اَور ُچپ چاپ کھڑا ہو گیا ۔ قادر بخش نے موقع غنیمت جانا اَور اُونٹ کو لے کر غائب ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد تھانے کا کاروبار شروع ُہوا تو اُونٹ کے خلاف دنگا فساد، مار کٹائی، اِرادہ ٔ قتل اَور ’’ ِنقص امن‘‘ کا ّمقدمہ درج کر لیا گیا۔ آ خری خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اُونٹ کی گرفتاری کے لیے پولیس جگہ جگہ چھاپے مارنے کے بجائے تھانے میں گپّیں مار رہی ہے۔