اللہ کتنا بے نیاز ہے، امریکہ کو ڈونلڈ ٹرمپ دیا تو پاکستان کو عمران خان دیدیا، اگر دنیا کی سپر پاور اور امداد پر گزارا کرنے والے ملک کے سربراہ مملکت ایک جیسے ہیں تو پھر یقین جانیے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی دنیا کی ایک نئی سپر پاور بن کر ابھرے گا اور امریکہ کی طرح فیصلے کیا کرے گا کہ کس غریب کو کتنی امداد دینی ہے اور اس کے بعد اس امداد کے عوض اس کا حشر نشر کیسے کرنا ہے، عمران خان نے پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر مکمل خود مختار ملک بنانے کے لئے بائیس سال جدوجہد کی اور اس دوران اپنے شوق پورے کرنے کیلئے بہت کم وقت نکالا، قوم کا درد نہ ہوتا تو تین کو دس سے ضرب دے کر کئی کام کرتا، اور ثابت کرتا کہ وہ کرکٹ ہی نہیں دنیاداری کا بھی پرفیکٹ کھلاڑی ہے لیکن اس نے ملک کیلئے سب کچھ تیاگ دیا، بالآخر اس کی سنی گئی اور اللہ نے اسے تخت پر بٹھا دیا، اس نے سب سے پہلے سب سے بڑا نیک کام یہ کیا کہ ،،سابق چور اچکے، کرپٹ،لٹیرے حکمرانوںکی جانب سے کئی دہائیوں سے لئے جانے والے اربوں، کھربوں کے قرضوں کے اوپر چڑھنے والا سود اتارنے کیلئے دنیا سے نئے قرض اور امداد حاصل کرنا شروع کی ،وہ اس کام میں انتہائی کامیاب رہا، اس نے غیر ضروری محکمے بند کر دیے تاکہ ان اداروں میں بلا وجہ لاکھوں ملازمین کو دی جانے والی تنخواہیں بچائی جا سکیں، اس نے ڈالر کو اتنا مہنگا کر دیا کہ عوام کو اپنی کرنسی کی وقعت کا احساس ہو سکے، اس نے بجلی اتنی مہنگی کردی کہ امیروں کو بھی بھاری بلوں کا احساس ہو سکے، اس نے گیس کی قیمتیں اتنی بڑھا دیں کہ ان غریبوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں جو سردیوں کی راتوں میں ہیٹر جلا کر سونے سے پہلے اسے بند کرنا بھول جاتے تھے اور نتیجہ انکی اور انکے بچوں کی موت نکلتا تھا۔ اسے اپنے چہیتے وزیر خزانہ کو اس لئے سبکدوش کرنا پڑا کہ اس نے آئی ایم ایف سے قرض لینے میں غیر ضروری تاخیر کردی تھی، جس کی وجہ سے عوام پریشان تھے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی امداد نہ ملی تو ہمارے وزیر اعظم ہمارے لئے پچاس لاکھ سستے گھروں اور ایک کروڑ نئی نوکریوں کا بندوبست کیسے کر سکیں گے؟ عوام کو بھی اپنے نو مہینے پورے کر لینے والے وزیر اعظم کا اتنا ہی خیال ہے جتنا کہ وہ ان کا دھیان رکھے ہوئے ہیں، جی کو جی تو ہوتی ہی ہے ناں جی! پچھلے کچھ دنوں سے تو عوام بہت ہی خوش ہیں۔ ہماری اپوزیشن اتنی کینہ پرور ہے کہ عمران خان نے ایران کے ساتھ سرحدوں کی مشترکہ سیکیورٹی کا معاہدہ کیا اور کسی ایک سیاسی مخالف نے اس کی ستائش نہ کی، کسی نے ایک ہاتھ سے بھی تالی نہ بجائی، اگر عمران خان نے جاپان اور جرمنی کو ہمسایہ ممالک قرار دیدیا تو کیا قیامت آگئی؟ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور اگر یہ سچ ہے تو پھر ایک گاؤں میں رہنے والے سب لوگ ایک دوسرے کے ہمسائے کیوں نہیں ہو سکتے، اس غلطی سے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص کیسے متاثر ہوگیا؟ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ دنیا کو ایک سے دوسرے کونے میں گھسیٹتا رہے تو ٹھیک، عمران خان نے تھوڑی سی دنیا سرکا دی تو اسے مجرم بنا دیا گیا۔ اپوزیشن خود کتنی عقلمند اور ذہین ہے اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے ہی لگا لیجئیے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ تہران کے دوران اس بات کا اعتراف کیا کہ ماضی میں پاکستان کی سرزمین سے ایران پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان کی اس’’ سچائی‘‘پر کوئی اپوزیشن لیڈر کیوں نہیں بولا، اپوزیشن شاید اس دن کا انتظار کر رہی ہے جب عمران خان چینی قیادت سے مذاکرات کے دوران یہ ،، اعتراف،، بھی کریں گے کہ ماضی میں پاکستان کی سر زمین چین کے خلاف بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔۔ بہر حال ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ایران میں زبان پھسل جانے سے سرزد ہونے والی وزیر اعظم کی چھوٹی سی غلطی کو جس طاقت سے اچھالا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ سیاسی مخالفین کے ہاتھ میں گیم کھیلنے کیلئے وننگ کارڈز نہیں ہیں، ن لیگ والوں کو تو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس غلطی پر شور مچاتے، انہیں ان کے لیڈر کی کیا کیا غلطیاں یاد دلائی جائیں جب واقعی پاکستان دنیا کے سامنے سچی مچی شرمندہ ہوجایا کرتا تھا، اس کے لئے تو ایک واقعہ ہی کافی ہے جب نواز شریف جیب سے پرچیاں نکالتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔۔۔ دوسری جانب اپوزیشن والے یہ بھی کہتے ہیں کہ زبان پھسلنے کی عادت پڑ جائے تو یہ دوسری کئی علتوں کی طرح آسانی سے جاتی نہیں ہے۔ اور یہی ہوا، اس سے اگلے دن۔۔۔ وزیر اعظم عمران خان نے نہ جانے کس حالت میںوانا جلسہ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو’’صاحبہ‘‘ قرار دیدیا، اور غلطیاں تو شاید فراموش کردی جائیں لیکن اس فاش غلطی کا ازالہ شاید ممکن نہ ہو سکے، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی اس غلطی نے منٹوں کے اندر اندر ان کی مقبولیت کو بہت بڑا جھٹکا دیدیا، اس لفظ کو بلاول بھٹو کی نہیں خواتین کی توہین سمجھا گیا ہے۔ بلاول بھٹو نے جواب میں صرف ایک چھوٹا سا فقرہ لکھا،،، بڑے آفس میں ایک چھوٹاآدمی بیٹھ گیا ہے۔۔۔۔ ن لیگ کے قائد شہباز شریف نے وزیر اعظم کے ریمارکس کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ن لیگ کی ترجمان محترمہ مریم اورنگزیب وزیر اعظم کے بارے میں کہتی ہیں کہ ان جیسا کم ظرف سیاسی مخالف پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، مجھے مریم اورنگزیب کے اس فقرے پر اعتراض ہے کہ’’پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا‘‘کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی کم ظرف تخت نشین ہوئے اور ان کی کم ظرفیاں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔۔ بہر حال میرے اس اعتراض کا مطلب عمران خان کی وکالت کرنا نہیں، وزیر اعظم نے پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کے قائد کیخلاف یقیناطنز کی ہے، ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹر کے چیف ایگزیکٹو کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کر رکھا تھا اور ان سے دریافت کر رہے تھے کہ سوشل میڈیا پر میری مقبولیت پریشان حد تک کم کیسے ہو گئی ہے؟ یاد رہے کہ امریکی صدر کی مقبولیت میں کمی کا یہ عالم ہے کہ ایک ماہ میں دو لاکھ چار ہزار فالورز نے ٹرمپ کو خیر باد کہہ دیا تھا، پاکستانی خواتین وزیر اعظم سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا عورت ہونا بے عزتی کی بات ہے؟ میں نے ایسی بہت سی معروف خواتین کے ٹویٹ بھی دیکھے جو جولائی دو ہزار 2018ئکے عام انتخابات میں جم کر عمران خان کے ساتھ کھڑی تھیں،ان خواتین کا کہنا ہے کہ عمران خان بھی ان شخصیات کی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں جو کسی مخالف مرد کو کمزور ثابت کرنے کیلئے اسے صنف مخالف سے منسوب کر دیتے ہیں، یہ ناخوشگواربیان خطرے کی گھنٹی ہے ۔۔۔گھنٹیاں تو اور بھی بجنے لگی ہیں، وزیر اعظم کے نیک طینت وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار بھی نیب کے راڈار میں آگئے ہیں، نیب حکام نے دعوی کیا ہے کہ انہیں بزدار کی کرپشن کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔