لاہور میں داتا گنج بخشؒ یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے برادرِ مکرم ارشاد احمدعارف صاحب کا استفسار ا ور میری بے مائیگی ، ان سے ملاقاتوں کا ایک مستقل حصہ ہے۔ لاہور کی وہ مذہبی ثقافت جس کا مرکز کسی دور میں حضرت داتا گنج بخشؒ کا دربار اور پھر اس کے نواح کا علمی ماحول تھا، ارشاد احمد عارف صاحب اس کے شناسا بھی ہیں اور شناور بھی۔ تحریکیں وہاں سے اُٹھتی اور علمی معرکے وہاں وقوع پذیر ہوتے تھے۔ داتا دربار پر قائم علمی اور تحقیقی ادارہ "مرکز معارف اولیائ"کی بساط1992ء کی "تنظیم نو"میں لپیٹ دی گئی، تو ارشاد احمد عارف صاحب نے اس کی ا زسرِ نو تشکیل کا اس وقت تک پیچھا کیا، جب تک کہ پنجاب کابینہ کے اجلاس منعقدہ06دسمبر1997ء میں، اس کی بحالی کا فیصلہ نہ ہوگیا۔مابعداس کی سُست روی سے وہ زیادہ مطمئن نہ تھے ،تاہم مقام شکر ۔۔۔ کہ گذشتہ سال اسی ادارے کے کلیدی اور مؤثر کردار کے سبب، حضرت داتا گنج بخشؒ کے سالانہ عرس مبارک کے موقع پر منعقدہ دور روزہ "عالمی تصوف کانفرنس"میں،وہ تشریف فرما ہوئے اور قلبی اور روحانی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ گذشتہ منگل کی مختصر---بلکہ مختصر ترین ملاقات میںبھی زیر نظر موضوع پر گفتگو ہوئی، جس میں دربار حضرت میاں میرؒ سے ملحقہ وقف، 55کنال اراضی پر تعمیر شدہ سہ منزلہ پُرشکوہ عمارت ، جس کا "Covered Area" ایک لاکھ تہتر ہزار چھ سو چھ مربع فٹ ہے، بھی موضوع گفتگو رہا۔ممکن ہے ، یہ ساعتیں قبولیت بھری ہوں، کہ انہی لمحات میں، ملک کے اعلیٰ ترین سیکرٹریٹ میں جاری "بریفنگ"اور اس کے شرکاء لاہور میں " صوفی یونیورسٹی کے قیام "پر غورکررہے تھے۔شاید لاہور کے صوفیاء کا تجردّ واستغنا ہی ایسا ہے کہ انہوں نے اپنے بعد، اپنی فکری اور علمی میراث کے علاوہ اورکچھ نہ چھوڑا ۔حضرت میاں میر ؒ کی وفات سے ایک روز قبل حاکمِ لاہور وزیر خان حکیمِ حاذق کو لیکر حاضرِ خدمت ہوا ،تو حضرت میاں میر ؒنے فرمایا میراعلاج اس حکیمِ حاذق کے پاس نہیں بلکہ اُس" حکیم مطلق "کے پاس ہے ،پھر فرمایا : درد مندِ عشق را دا رو بجز دیدار نیست یعنی عشق کے درد مند کا علاج (محبوب کے) دیدار کے سوا کچھ نہیں ۔ حکم دیا مجھے شور زمین میں دفن کرنا، تاکہ میری ہڈیوں کا بھی وجود باقی نہ رہے ۔حضرت داتاصاحبؒ فرماتے تھے کہ صوفی ہوتا ہی وہ ہے ،جوخود کے ساتھ فانی اور صرف حق کے ساتھ باقی رہے ،بہر حال--- شاید اسی لیے لاہور میں سرکار ی سطح پر کوئی یونیورسٹی ---حضرت داتا گنج بخش ؒ، حضرت میاں میر ؒ یا کسی اور بزرگ کی نسبت سے خود کو مزّ ین نہ کرسکی ۔اگرچہ سرکاری اور حکومتی سطح پر 1993سے لیکر تاحا ل ---کئی اعلان ہوئے ، وزیر اعلیٰ منظور احمد وٹو نے سال 1993-94میں "داتا گنج بخش ؒ ہجویری اکیڈمی "کا اعلان کیا اور اپنی خصوصی نگرانی میں اس پر کام شروع کروایا ،مگر معاملہ رسمی کارروائی سے آگے نہ بڑھ سکا۔ عظیم الشان داتاؒ دربار کمپلیکس کی پُر شکوہ افتتاحی تقریب بمطابق 31مئی 1999ء سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمدنواز شریف نے بطور وزیر اعظم پاکستان، حضرت داتا گنج بخش ؒ سے منسوب "سیّد علی ہجویری یونیورسٹی آف سائنس وٹیکنالوجی "کا اعلان کیا ، مابعد سال 2001ء میں داتا گنج بخش انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور پھر سال 2002ء میں گورنر پنجاب خالد مقبول کے ہجویری یونیورسٹی کے اعلان سمیت کئی منصوبے زیر غور آئے ،مگر۔۔۔ جس کا ایک بنیادی سبب تو یہ بھی تھا کہ یونیورسٹی بنانا اوقاف کا مینڈیٹ ہی نہ تھااورنہ ہی اس کی استعداد۔ اس کے لیے خاص ادارے جن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اہم ہیں ،جن کے اندر" پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ" کے الگ شعبے موجود ہیں،جو یونیورسٹی کی تشکیل وترتیب کے حوالے سے ضروری امور میں مہارت رکھتے ہیں ۔ جس کے لیے سب سے پہلے "Feasibilty Report"کی تیاری، چارٹر ،پی سی اور پھر ایکٹ آف پارلیمنٹ وغیرہ بنیادی چیزیں ہیں ۔مقام شکر--- اس وقت جب لاہور میں "صوفی یونیورسٹی "کے قیام پر کام شروع ہوا ،تواس کو پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ آگے بڑھانے کا اہتمام بھی ہوا،جس کے مثبت نتائج کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ امر بھی قارئین کے لیے حیران کن ہوگا کہ اہلِ مغرب طویل عرصے تک مابعد الطبیعاتی سوچ وبچار اور ماوراء النفسیاتی تحقیق وتفحص سے اِحتراز کرتے رہے ،کہ ان کے نزدیک انسانی زندگی میں نہ کسی علیم وقدیر خداکی گنجائش تھی اور،نہ نبوت والہام کی ہدایت کا کوئی وز ن ۔۔۔ نہ موت کے بعد کسی دوسری زندگی کا تصوّر ،نہ اعمال کے احتساب کا کھٹکا اورنہ زندگی کے حیوانی مقاصد سے بالا تر کسی اور مقصد یا نصب العین کا امکان ۔۔۔ مغرب کے اس فلسفۂ حیات نے اخلاق کو نفسانیت اور ریا کے سانچے میں ڈال دیا ۔ معیشت پر خود غرضی اور انسانیت کشی کا شیطان مسلّط کردیا اور معاشرت کی رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں نفس پرستی ،تن آسانی اور خود کامی کا زہراتا ردیا ، جس کے سبب آج بے یقینی اور عدم اطمینان کی کیفیت اُن پر چھائی ہوئی ہے۔ آج یورپ کے مفکرین نے ظواہریت کے مغالطوں کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس کی سطحیت اورکھوکھلے پن سے بھی بیزار ہونے لگے ہیں ۔یہ طلب ،تڑپ اور کسک ان کو تصوّف اور روحانیت سے آگاہی پر مائل کررہی ہے ۔آج مغرب "رومی " کو اپنا معلم وپیشوا بنانے پر آمادہ ہوچکا ہے۔۔۔ کہ شاید اِسی سے ا ن کی" شبِ تاریک سحر" ہوسکے ۔ وہ حقیقی خوشی ، قلبی اطمینان اور روحانی تسکین کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔کیلیفورنیا کی "University of Spiritual Healing and Sufism" میں ایسے خصوصی کورسز کا اہتمام جاری ہے ،جس سے انسان کا اپنے اللہ سے تعلق قائم ہو اور لوگوں کے دلوں میں محبت ،امن ، سچائی اور رحم کا جذبہ فراواں ہوسکے ۔ اس یونیورسٹی میں دیگر کورسز کے علاوہ چار سالہ ماسٹر پروگرام "Master in Divinity"بھی بطور خاص اہم ہے ۔ اسی طرح آکسفورڈیونیورسٹی میں Theology and Religionکا شعبہ مذہبی عقائد ،تاریخ اور ان کی فلاسفی کو سمجھانے میں سرگرم عمل ہے ۔ استنبول (ترکی) کی "Uskodar University"کا" انسٹیٹیوٹ آف صوفی ازم" عالمی سطح پر ایسا ماحول تشکیل دینے کے لیے کوشاں ہے ، جس کے سبب لوگ ایک دوسرے کی خدمت کرکے خوشی اور سکون محسوس کر سکیں ۔ اوریہ بات شاید قارئین کے لیے سب سے زیادہ حیران کُن ہو کہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سرزمین بھٹ شاہ ضلع مٹیاری (سندھ) میں یونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈ ماڈرن سائنسز کا قیام، بذریعہ ایکٹ آف سندھ پارلیمنٹ 2011ء عمل میں آچکا ہے۔ یہ یونیورسٹی بزنس ایڈمنسٹریشن ، کمپیوٹر سائنسز، کامرس سٹڈیز اور ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن اینڈ صوفی ازم سٹڈیز کے شعبہ جات پر مشتمل ہے۔ سنٹر فار صوفی سٹڈیز ، ریسورسز اینڈ پبلیکیشنز کے زیراہتمام "ریسرچ جرنل آف صوفی فیلوسفی اینڈ پریکٹیسز"بھی بطورِ خاص اہم ہے ۔