اپوزیشن نے حکومت کیخلاف اپنی تحریک تیز کردی اور نہ صرف اپوزیشن بلکہ ان کے ووٹر اور اسپورٹرز لاہور کے جلسے سے بہت پر امید ہیں انکا خیال ہے کہ لاہور کا جلسہ کامیاب ہو ا تو شاید حکومت گر جائے لیکن حکومت ختم کرنے کا یہ طریقہ ہے نہ ہی ایسے حکومتیں ختم ہو تی ہیں، جلسے جلوسوں کے بعد اپوزیشن نے پہیہ جام ہڑتال، جگہ جگہ دھرنے اور احتجاج کا پرو گرام بھی بنایا گیا اور آخر میں اسمبلیوں سے استعفے کی دھمکی دی ہے، بات یہ ہے کہ ن لیگ کا نعرہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور وہ اس نعرے کو ہر جلسے میں لگا رہی ہے ،کیا ن لیگی ارکان استعفے دیکر اپنے ووٹر کے ووٹ کو عزت دے رہے ہیں، لوگوں نے انہیں ووٹ دیا تھا کہ ایوان میں جا کر ہمارے مفاد کیلئے قانون سازی کریں، ہماری بہتری کیلئے کام کریں اگر ایسا نہیں ہو رہا تو بھی استعفے دیتے وقت ان ووٹروں سے پوچھا جائے کہ ہم استعفے دیں یا نہیں جیسے ووٹ لیتے وقت ووٹر کے نخرے اٹھائے جاتے ہیں ویسے ہی استعفے دیتے وقت بھی ان کو اعتماد میں لیا جائے،لیکن استعفے کا اعلان کر کے ووٹر کے ووٹ کی عزت نہیں کی جا رہی ہے،فرض کر لیتے ہیں اپوزیشن کے جلسوں جلوسوں دھرنوں لانگ مارچ سے عمران حکومت ختم ہو جاتی تو پھر کس کی حکومت بنے گی۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں اکثریت نہیں نہ ہی وہ اتنی مقبول ہے کہ پنجاب سے 50 یا 60 سیٹیں لے پنجاب میں پی ٹی آئی کے بعد ن لیگ پاپولر جماعت ہے۔ پنجاب سے ن لیگ جیت سکتی ہے اب تک یہی ہوتا آیا ہے، جو پنجاب سے جیتا وہ مرکزی حکومت بنا لیتا ہے ، مر کز میں حکومت تو بن گئی ن لیگ کی، پی پی کو کیا ملا، وہ پھر سندھ تک محدود رہے گی اور سندھ میں حکومت بنا لے گی۔ سندھ میں تو پی پی کی پہلے ہی حکومت ہے۔ سینیٹ میں اکثریت بھی ن لیگ کی ہو سکتی ہے، چیئر مین سینیٹ بھی ن لیگ کا ہو گا ۔پی پی کو کیا ملا ، تمام تجزیہ نگار بھی یہی بات کر رہے ہیں کہ استعفوں سے پی پی کو کچھ نہیں ملے گا ،پھر وہ اپنی بنی بنائی حکومت کو کیوں خراب کرے پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سندھ کی حکومت کسی اور کو مل جائے، جیسے ایم کیو ایم،تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں مل کر حکومت بنا لیں ، پی پی تو گئی ، قوی امید ہے کہ پیپلز پارٹی استعفوں کا کھیل نہیں کھیلے گی اور دوسری بات استعفوں پر وہ لوگ زیادہ زور دے رہے ہیں جو خود اسمبلیوں سے باہر ہیں، فضل الرحمان، مریم نواز، کاہرہ،چودھری منظور اور دیگر وہ افراد جو خود اسمبلی کا حصہ نہیں ہیں،اس کے علاوہ اپوزیشن مہنگائی کیخلاف احتجاج کر رہی ہے تو کیا سندھ میں مہنگائی نہیں ہے ،سبزیاں، پھل ، آٹا، دودھ،چینی یہ سب سندھ کی پیداوار ہیں تو سندھ میں مہنگائی کیخلاف احتجاج کون کرے گا،عام تاثر یہ ہے کہ اپوزیشن کا تمام تر احتجاج مہنگائی کیخلاف ہے نہ ہی عوام کی فلاح کیلئے، بلکہ اپنے لوگوں کو کرپشن سے بچانے کیلئے ہے ، شریف فیملی کے تمام افراد پرکسی نہ کسی طور پر کرپشن کے الزامات ہیں، اسی طرح زرداری فیملی پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں ۔ دوسرا یہ ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں سینیٹ کے الیکشن ہونے ہیں اور یقینی طور پر اس الیکشن کے نتیجے میں سینیٹ میں تحریک انصاف کو برتری حاصل ہو جاجئے گی۔ تحریک انصاف بہت اہم قانون سازی کرنا چاہتی ہے لیکن سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجبور ہے ۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سینیٹ میں تحریک انصاف کی اکثریت ہوگئی توایسے قوانین پاس ہونگے جو اپوزیشن کو راس نہیں آ ئینگے اپوزیشن پورا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح حکومت گر جائے اور سینیٹ الیکشن رک جائے، اسی لئے استعفوں پر زور دیا جا رہا ہے۔لیکن اعتزاز احسن نے ایک بات کر کے دھماکہ کردیا کہ تمام اپوزیشن استعفے دے بھی دے، تب بھی اسمبلیاں ختم نہیں ہونگی ۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں کام کرتی رہیں گی، اعتزاز کا کہنا تھا کہ تمام صوبائی اسمبلیوں سے اپوزیشن استعفے دے بھی دے تب بھی الیکٹورل کالج بچ جائے گا ۔ اس میں اپوزیشن کو نقصان ہو گا،یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی میچ میں کوئی ٹیم نہ پہنچے تو دوسری ٹیم کو واک اوور مل جائے گا، کیونکہ اسمبلیاں استعفوں سے ختم نہیں ہوتیں، قومی اسمبلی میں 342 ارکان ہیں اس میں جب تک 84 ارکان باقی ہیں اسمبلی چلتی رہے گی کیونکہ اسمبلی کا کورم پورا ہے،وہ اسمبلی قانون سازی بھی کر سکتی ہے صرف آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے دو تہائی اکثریت چاہئے۔اگر 150 استعفے بھی آ جائیں تب بھی قومی اسمبلی موجود رہے گی۔پنجاب میں تمام اپوزیشن مستعفی ہوجائے تو سینیٹ کی 14 نششتیں تحریک انصاف لے جائے گی یہ اپوزیشن کو بہت بڑا نقصان ہو گا۔ اگر سندھ کا وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑ دے تو سینیٹ الیکشن کو کوئی فرق نہیں پڑتا، سندھ کے سینیٹ کے الیکشن بعد میں ہو جا ئیں گے۔ 18 ویں ترمیم جب ہوئی تو اس میں ایک خاص ترمیم کی گئی تھی کہ جو بھی استعفیٰ دے گی، اسپیکر اس سے ذاتی طور پر پوچھے گا کہ آیا وہ خود سے استعفیٰ دے رہا ہے یا کوئی دبائو ہے ۔ اسی طرح کا کیس ہوا تھا، جب تحریک انصاف نے استعفے اسپیکر ایاز صادق کو دئیے تو انہوں نے منظور نہیں کئے ان کا خیال تھا کہ وہ فرداًفردااًپوچھے گا۔ پارٹی کے ہیڈ کو استعفا دینے سے استعفا نہیں بنتا۔اپوزیشن نے ایک سیاسی چال چلی کہ ارکان سے استعفے لے بھی لئے جائیں اور آگے دیئے بھی نہ جا ئیں اب دیکھتے ہیں کہ اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کیا ہے، تو تحریک انصاف نے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 116 جنرل نشستیں جیتیں اور 9 آزادا اراکین پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، جس کے بعد ان کی تعداد 125 ہو گئی۔تحریک انصاف کو 5 اقلیتی اور خواتین کی 28 نشستیں ملیں اس طرح ان کا مجموعی نمبر 158 تک پہنچ گیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 64 نشستیں جیتیں اور کوئی بھی آزاد رکن ان کے ساتھ شامل نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن کو مخصوص اقلیتی دو اور خواتین کی 16 نشسیتیں ملیں جس کے بعد ان کی تعداد 82 ہو گئی ہے۔پیپلز پارٹی نے 42 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، اس طرح انہیں دو اقلیتی اور 9 خواتین کی مخصوص نشستیں ملیں جس کے بعد ان کا نمبر 53 تک پہنچ گیا ہے۔ایم کیو ایم پاکستان نے قومی اسمبلی کی 6 نشستیں جیتیںخواتین کی ایک نشست ملی ہے جس کے بعد ان کے اراکین کی تعداد 7 ہو گئی ہے۔مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی،کے اراکین کی تعداد 5، 5 ہو گئی ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے اراکین کی تعداد 4ہے۔گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی3 نشستیں ہیں، عوامی نیشنل پارٹی، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی نے بھی قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست جیتی۔قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے جن میں سے 9 نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 4 نے اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھا جب کہ دو نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے اور ایک کے نتائج رکے ہوئے ہیں۔متحدہ مجلس عمل نے 12 نشستیں جیتیں۔ایک اقلیتی اور دو خواتین کی نشستوں کے ساتھ 15 تعداد ہے۔حکومت کو 170 سیٹیں درکار ہیں اور اس سے زیادہ سیٹیں ہیں،اپوزیشن کی 155 کے قریب سیٹیں ہیں اگر وہ استعفے دیدے تو ضمنی الیکشن ہو سکتے ہیں،پنجاب ،کے پی کے اور بلوچستان میں حکومت کو استعفوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد ووٹ ملے ہیں اور عمران خان واحد سیاست دان ہیں جو پانچ جگہ سے ایکشن لڑے اور پانچوں سیٹوں پر جیتے، اپوزیشن کا نعرہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو تو تحریک انصاف بھی ووٹ لیکر آئی ہے ان کے ووٹوں کو بھی عزت دو…