حسرت وصل علی لمحہء بے کار کے ساتھ بخت سویا ہی رہا دیدہ بیدار کے ساتھ کیا کرے جذبہ وارفتگی شوق نہاں دل کو گل رنگ کیا گوشہ پرخار کے ساتھ بعض اوقات خود اذیتی میں بھی بڑا لطف آتا ہے جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر۔ اب شکوہ اور شکایت کیسی۔ خواب بھی تو ہم نے خود دیکھے تھے کہ بہت خوشنما تھے۔ اب خوابوں کی تعبیر کس کے بس میں ہے؟ لوگ آخر ہمیں کیوں شرمندہ کرتے ہیں کہ ہم نے خود ہی بلا گلے لگائی۔ ۔ ہم انسان ہیں کہاں تک دیکھو یا سمجھ سکتے ہیں۔ یہ چھیلڈون کی دنیا ہے۔ آپ چھیلڈے لفظ پر حیران نہ ہوں۔ یہ اپنی ہیئت یعنی شکل بدل سکتا ہے۔ منیر نیازی نے ایک ڈرامہ لکھا تھا قصہ دو بھراواں دا۔ ایک راہی کو راستے میں ایک شخص ملتا ہے جس کے پائوں الٹے ہوتے ہیں۔ وہ وہاں سے بھاگتا ہے۔ ایک آدمی کو اپنی سائیکل پر بٹھاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد سائیکل بھاری ہوتا ہے تو پیچھے دیکھتا ہے پیچھے بیٹھے آدمی کی ٹانگیں فرلانگ لمبی ہو جاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ سائیکل چھوڑ کر بھاگتا ہوا گائوں پہنچتا ہے تو ایک آدمی کو سارا ماجرا سناتا ہے تو مخاطب اسے اپنے پائوں دکھاتا ہوا کہتا ہے کہ کہیں اس کے پائوں ایسے تو نہ تھے۔ راہی اس کے الٹے پائوں دیکھ کر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ہائے ہائے کس کو بپتا سنائیں۔ ناسخ نے کہا تھا: روداد ستم کہہ کر ہم نے جو کہا سمجھے منہ پھر کے وہ بولے جھوٹے کو خدا سمجھے اپنی وہ دعائوں کو سمجھے کہ شکایت ہے کیوں ہم نے شکایت کی یہ اس کی بلا سمجھے میں اس کالم کو ادبی نہیں بنانا چاہتا کہ معاملہ بے ادبی کا درپیش ہے کہ میرے عوام کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہورہا۔ ہمیں تو باتیں آتی ہیں ہم نکتہ آفرینیاں کرتے ہیں اور ٹی پی پر بیٹھ کر دل لگیاں کرتے ہیں مگر جس کے پیٹ میں روٹی نہیں اس کو لفظی عیاشیوں سے کیا۔ جس کو چاند بھی روٹی نظر آئے‘ اس کی بلا سے آپ کسی کو این آر او دیں یا نہ دیں ۔ غریب آدمی کا تو آپ نے معاشی قتل کردیا اور یہ ایسا قتل ہے کہ جس کا نہ قصاص ہے اور دیت۔ آپ کے لیے تو یہ روٹین کی خبر کہ سبزیاں پھل‘ گوشت اور انڈے مزید مہنگے۔ آپ کے چاہنے والوں کو لوگ مذاق کرتے ہیں کہ اب ’’نہ ایناں رو‘‘ شرارتی غالب سامنے آ جاتا ہے: نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے خیر ہم تو اپنا دل کہیں نہ کہیں بھلا لیتے ہیں۔ کچھ ہم سے اور بھی ستم ظریف ہیں کہ اچھی خاصی سنگین صورت حال سے بھی مزاج کشید کرلیتے ہیں۔ یہ بھی غالباً فطری عمل ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی بے بسی اور ناگفتہ بہ حالت پر ہنس پڑتا ہے۔ یہ الگ بات کہ غالب اس سے آگے جاتا ہے کہ پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی۔ مگر جس صورت حال پر ہم مسکرا دیے وہ یہ ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر ڈاکو ئوںکے ناکے۔ تیس لاکھ روپے کے قریب ڈاکوئوں نے لوٹ لیے۔ ویسے کمال ہی ہو گیا۔ ڈاکو بھی پولیس کے مقابلے پر ناکے لگانے لگے۔ سوال پیدا ہوتا کہ پولیس کہاں مر گئی ہے کہ ڈاکو اتنے دلیر ہو گئے کہ ہاتھ پر چراغ لیے پھرتے ہیں۔ شکر ہے نیب کے اختیارات ابھی بڑے لوگوں تک نہیں۔ کالج کے زمانے میں ایک شاعر غلام حسین بھٹی ہوا کرتا تھا اس نے آرٹس والوں کو خوش کرنے کے لیے ایف ایس سی والوں کے لیے نظم پڑھی۔ تب ڈاکٹر کی فیس 60 روپے ہوا کرتی تھی۔ نظم کا مصرعہ تھا: سانوں سٹھاں توں ودھ نہ ملے رشوت اس میں کیسا زبردست ابلاغ ہے۔ اب تو بات لاکھوں اور کروڑوں سے ہوتی ہوئی اربوں تک پہنچ گئی ہے۔ آپ دیکھ لیں صرف جرمانہ ہی سات ارب روپے ہے اور مزے کی بات کہ ایک فراڈیے نے ایک سالم ملک کو لوٹا ۔جب انسان دشمنی اور انتقام میں اندھا ہو جائے تو اسے ملک و قوم کا نقصان بھی نظر نہیں آتا۔ کتنے لوگ ہیں جو ہم سے سوال کرتے ہیں کہ حکومت تعلیم کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے۔ ہمارا تو دل بیٹھنے لگتا ہے کہ واقعتاً ہماری نسل کو برباد کرنے کا پروگرام تو نہیں؟ پہلے آٹھویں تک 25 مارچ تاریخ کی۔ یکم مارچ کردی گئی وہ بھی متبادل دنوں کے لیے یعنی ایک طالب علم مہینے میں 13 روز سکول آئے گا۔ یہ بھی کوئی آخری بات نہیں۔۔ ہزاروں اساتذہ متاثر ہورہے ہیں۔ صرف سرکاری اداروں والے خوش ہیں: تم ہی نہ سن سکے اگر قصہ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے آپ نے تو سراج الحق کو سخن آرائی کا موقع فراہم کردیا۔ انہوں نے آپ کی کارکردگی پر کیا کیا قافیہ آرائی کی ہے۔ اہل ذوق عش عش کر اٹھے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں سونای اب ناکامی اور بدنامی بن چکا۔ پھر انہوں نے قافیہ بدل کر کہا کہ بے رحمی کا نشان بن چکا۔ یہ بات انہوں نے پتے کی کی کہ وزیراعظم نے حکومت کا آغاز ہی اپنے نظریہ کی نفی سے کیا۔ بات یہ ہے کہ نظریہ ضرورت ہر نظریے کو ختم کردیتا ہے۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی کے نظریاتی لوگ خود ہی انہیں چھوڑ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آخر پی ٹی آئی نے فارن فنڈنگ کا اعتراف کرلیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ فنڈ سرکار کے خزانے میں جا سکتا ہے مگر سرکار کس کی ہے؟ اکبر ایس بابر تو سارے ڈاکومنٹس پہلے ہی دکھا چکا ہے۔ شاید اقدام اور روایات سچ مچ دم توڑ چکی ہیں۔ آخری بات بھی دلچسپ ہے کہ کہا جا رہا ہے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اپنی موت آپ مر گیا۔ جناب آپ نہیں مرا‘ اسے حالات نے مار دیا۔ بھلا ووٹ کی کیا عزت۔ ؟ ایک شعر کے ساتھ اجازت: کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو