یہ ہفتہ تو چیئرمین نیب کے حوالے سے چلنے والی خبروں میں گزرا۔ شروعات ان آڈیو اور ویڈیو کلپس سے ہوئی جو ایک انصاف پسند ٹی وی چینل نے چلائیں۔ کلپس تحیّرخیز تھے اور ہوشربا بھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد انصاف پسند چینل پر جانے کیا آفت نازل ہوئی کہ اپنی ہی چلائی ہوئی خصوصی نشریات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے دیا۔ میڈیا کی تاریخ کا یہ بھی ایک انوکھا باب تھا۔ ہو شربا تو نہیں البتہ تحیر خیز ضرور۔ مسلم لیگ نے مطالبہ کیا کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائے۔ ابھی یہ مطالبہ پوری طرح نشر بھی نہیں ہوا کہ یک رکنی تحقیقاتی کمیٹی عرف فردوس عاشق نے معاملے کی تحقیقات بھی کر ڈالیں اور ’’فائنڈنگ‘‘ جاری بھی کر دیں۔ فرمایا کہ یہ مسلم لیگ کی اوچھی سازش تھی۔ مسلم لیگ کو داد دینا چاہیے کہ اس نے سازش میں اس ٹی وی چینل کو استعمال کیا جس کا مالک تحریک انصاف کا خاص آدمی ہی نہیں‘ وزیر اعظم ہائوس میں کثرت سے بلکہ صبح و شام آنے والا میڈیا ایڈوائزر بھی تھا۔ اب نہیں ہے کہ جب ’’آفت‘‘ نازل ہوئی تو میڈیا ایڈوائزروں کے اجلاس میں شرکت سے اسے روک دیا گیا۔ ٭٭٭٭٭ نیب کا کہنا ہے کہ یہ اسے بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔ حکومتی وزراء بھی اس’’سازش‘‘ کی مذمت کر رہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے معزز صاحب اور معززہ صاحبہ وہی ہیں جو نظر آ رہے ہیں یا کوئی اور ہیں۔ یعنی ہمشکل اور ہمزاد؟۔ بہرحال اس سے فرق نہیں پڑتا۔ چیئرمین نیب صادق و امین ہیں۔ انہوں نے تردید کر دی تو کافی ہے۔ حکومت بھی صدقا و امناً کے جم غفیر کی ہے۔ انہوں نے بھی تردید کر دی تو اور بھی کافی ہے۔ پی ٹی آئی کے اصحاب نے تحقیقات کے مطالبے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ ذاتی معاملات کی تحقیقات نہیں ہوا کرتی۔ بھٹو صاحب یاد آ گئے۔ 1977ء میں ان کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ ان کی ذات اخلاقی الزامات کا ہدف تھی۔ ایک الزام یہ بھی تھا کہ صاحب مشروب ممنوعہ نوش فرماتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے تنگ آ کر ایک جلسے میں کہہ دیا‘ ہاں ‘ تھوڑی سی پیتا ہوں۔ بس طوفان آ گیا۔ تحریک اور تیز ہو گئی۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں یہ انصافی ڈاکٹرائن نہیں تھا۔ ہوتا تو کہہ دیتے‘ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ بات وہیں کی وہیں ختم ہو جاتی۔ جس طرح کی ویڈیو ہے۔ تحریک انصاف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ یہ ذاتی معاملہ ہے۔ ایسے ذاتی معاملوں کو مسترد تحریک انصاف نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔ بات سمجھا کرو بھائی۔ ٭٭٭٭٭ یہ تو سازش تھی بلاشبہ ‘ ہر صادق و امین حلقے نے مہر ثبت کر دی لیکن اس سازش سے جڑی کچھ اور سازشی تھیوریاں بھی ہیں۔ آغاز ہوتا ہے ایک قد آور صحافی کی رپورٹ سے جن کی چڑیا طوطا کہانی کے طوطے سے بھی زیادہ مشہور ہے۔ اگرچہ کسی نے چڑیا کو دیکھا تو نہیں لیکن اس کی زبانی جو کہانیاں نشر ہوتی رہیں۔ وہ ایک دنیا نے سنیں ۔ زیروزیرو سیون۔ جیمز بانڈ کے پرکترتی اس چڑیا نے ویڈیو لیک ہونے سے ایک دو روز پہلے یہ خبر نشر کی کہ شہزادہ جان عالم صاحب سے ناراض ہیں کہ انہوں نے یہ بات کیوں کر دی کہ وہ حکمران جماعت والوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو حکومت دس منٹ میں گر جائے گی۔ چنانچہ‘چڑیا نے بتایا کہ ایک ویڈیو تیار ہو رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے اور اسے ایک آدھ دن میں لیک کر دیا جائے گا جس کے بعد جی آئی صاحب کو استعفیٰ دینا پڑ جائے گا۔ جی آئی صاحب کا نائب پکا انصافی ہے اور شہزادہ جان عالم کا بے شرط جانثار‘ وہ قائم مقام بن جائے گا اور پھر حسب دل پسند پکڑ دھکڑ ہو گی۔ دو ہی روز بعد چڑیا کی سازشی تھیوری کی تصدیق ہو گئی۔ ٭٭٭٭٭ لیکن ایک گمنام (قدرے) لیکن بہت باخبر صحافی نے اس کالم نویس کو بتایا کہ اصل غصہ یہ نہیں تھا۔ جی آئی صاحب ہر بات پر آمنا صدقنا کہتے تھے۔ وہ عباسی کی گرفتاری کی فرمائش پر بھی‘ جی آئی‘ بن گئے تھے لیکن ان سے فرمائش کی گئی تھی کہ بلاول اور مریم کو بھی عید جیل میں گزارنی چاہیے۔ اس پر جی آئی صاحب قدرے ہچکچائے‘ یہی ہچکچاہٹ‘ ’’ویڈیو آور‘‘ ثابت ہوئی۔ ٭٭٭٭٭ استعفیٰ قریباً تیار تھا لیکن پھر ایک ’’گڑ بڑ‘‘ کی نشاندہی کسی نے کر دی۔ کہا قائم مقام تو اپنا آ جائے گا لیکن قانونی طور پر اسے کچھ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ پھر کیا ہو گا۔ چنانچہ ویڈیو کا معاملہ ختم کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ اب طے ہوا ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور بلاول کو عید کے آس پاس پکڑا جائے گا۔ مریم کا معاملہ کسی اور جگہ سے’’زیر عمل‘‘ لایا جائے گا جس کی طرف باخبر شیخ رشید نے واضح اشارہ کر دیا ہے۔ کہا ہے کہ ’’اپوزیشن ‘ باز نہ آئی تو ’’ضمانت‘‘ منسوخ ہو سکتی ہے۔ یہاں اپوزیشن سے مراد مریم نواز کو لیا جائے تو شیخ صاحب کی باخبری سمجھ میں آ سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ جی آئی صاحب کی نوکری تو بچ گئی پر عزت سادات…؟وہ متاع کوچہ و بازار نہیں بن گئی؟ابھی مکافات عمل کا معاملہ دور ہے۔ چار پانچ اصحاب‘ جن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ بے گناہ تھے۔ جی آئی صاحب کی زیر حراست جان سے گئے ۔ ایک تو لاش کو بھی ہتھکڑی لگائی گئی جو جی آئی محترم کی اعلیٰ اخلاقیات کا اشتہار بن گئی۔ ان بے گناہوں کا لہو کسی دن بول اٹھا تو کیا ہو گا؟ لاپتہ افراد کے بارے میں بہت سی دردناک کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ اخبارات میں چھپنے سے محروم رہتی ہیں لیکن الیکٹرانک سینہ گزٹ یعنی سوشل میڈیا پر چلتی رہتی ہیں۔ کبھی نہ کبھی‘ مثبت خبروں کا دور گزرنے کے بعد‘ ان کہانیوں نے بھی داد پانی ہے۔ فاعتبرو یا اولو الالصبار۔