تحریک انصاف کے دو سالہ حکومت میں وفاقی کابینہ میں رد وبدل میوزیکل چیئر بن کر رہ گیا ہے۔ وزارتوں اور محکموںمیں اکھاڑ پچھاڑ اب تو معمول کی کارروائی لگتی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے بعد سب سے کلیدی وزارت، خزانہ کی ہوتی ہے اور اقتصادیات کا پہیہ چلانے میں وزیر خزانہ کا رول اہم ترین ہوتا ہے۔اس منصب کیلئے وزیراعظم کے قابل اعتماد ساتھی اسد عمر کا عام انتخابات کے انعقاد سے بھی پہلے قرعہ فال نکل چکا تھا لیکن چند ماہ بعد احساس ہوا کہ یہ ان کے بس کا روگ نہیں اور گزشتہ برس اپریل میں انہیں وزارت خزانہ سے ہٹا دیا گیا۔ڈاکٹرحفیظ شیخ امور خزانہ چلانے کیلئے خصوصی معاون بن کر آئی ایم ایف کی آشیرباد کیساتھ دوبارہ تشریف لے آئے وہ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور اس وقت نامساعد بین الاقوامی اقتصادی حالات کے باوجود ان کی کارکردگی بری نہیں تھی۔ اسد عمر جو پہلے وزیراعظم کے انر سرکل سے باہر تھے،اب جہانگیر ترین کے آؤٹ ہونے کے بعد دوبارہ عمران خان کے قریب ہو گئے ہیں بلکہ اب وہ پوائنٹ مین ہیں۔مخدوم خسرو بختیار بھی اسی میوزیکل چیئر کے کھیل کا شکار ہوتے رہے ہیں۔انہیں ابتدائی طور پر وزیر آبی وسائل بنایا گیا دو روز بعد ہی انہیں منصوبہ بندی ، ترقی واصلاحات کا قلمدان سونپ دیا گیا اور چند ماہ بعد انہیں فوڈ سکیورٹی کا قلمدان دے دیا گیااور گزشتہ ماہ تبدیلیوں کے دوران اقتصادی امور ڈویژن کو وزارت خزانہ سے الگ کر کے انہیں سونپ دی گئی۔نوجوان حماد اظہر جو انتہائی فعال ہیں کے‘ ساتھ بھی فٹ بال جیسا سلوک کیا گیا۔انہیں 2018ء میں پہلے وزیر مملکت برائے ریونیو بنایا گیا،2019-20ء کا قومی بجٹ بھی انہوں نے پیش کیا تھا۔وزیراعظم نے ان کی کارکردگی سے متاثر ہو کر پچھلے سال جولائی میں وفاقی وزیر ریونیو بنا دیا ،یہ ادا حفیظ شیخ کو پسند نہیں آئی اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ریونیو کا محکمہ وزیر خزانہ کے پاس ہی ہونا چاہئے ،اگلے ہی روز حماد اظہر کو اقتصادی امور کا وزیر بنایا گیا۔اپریل کے آغاز میں حماد اظہر کو اچانک وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار بنا دیا گیا۔ کابینہ میں سب سے زیادہ ردوبدل وزارت اطلاعات میں ہوا ہے، تحریک انصاف جب برسر اقتدار آئی تو فواد چودھری وزیر اطلاعات ونشریات بنائے گئے لیکن گزشتہ اپریل میں ان سے یہ وزارت لیکر سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت دے دی گئی اور ان کی جگہ محترمہ فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی بنا کر وزارت سونپ دی گئی۔غالباً کابینہ میں تبدیلی وزیراعظم عمران خان نے خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہی کی ہو گی لیکن کسی کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ فردوس عاشق اعوان کہاں سے آدھمکیں اور ان کے پاس کیا جوہر قابل تھا کہ انہیں اطلاعات جیسی اہم وزارت سونپی گئی۔یقیناً خان صاحب کو ان میں کوئی ایسی بات نظر آئی ہوگی کہ سیالکوٹ سے 2018 ء کا الیکشن بری طرح ہارنے کے باوجود انہیں خصوصی معاون کے طور پرکابینہ میں لایا گیا۔ محترمہ پیپلز پارٹی کے دور میں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، اس زمانے میں جب ان سے استعفیٰ لیا گیا تو انہوں نے کابینہ میں بیٹھے بیٹھے ہی رونا شروع کر دیا جس پر وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ آپ ماحول خراب کر رہی ہیں۔ وہ اپنی تگڑی سفارش کے باوجود وزارت اطلاعات کے روزمرہ کے معاملات سے بظاہر لاتعلق نظر آتی تھیں، وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں مخالفین پر شدید نکتہ چینی کرنے، انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے اور فقرے چست کرنے پر صرف کر رہی تھیں۔ وزیراعظم کی ترجمان اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے وہ پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاک کرنے کے علاوہ قریباً ہر شام کو مختلف چینلز پر رونق افروز ہوتی تھیں، اس لیے یہ تاثر جاگزین ہو گیا کہ وزیراعظم نے انہیں یہی ٹاسک دیا ہوا ہے جس سے وہ مقدور بھر عہدہ برآ ہونے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ ان کے علاوہ پارٹی میں اور بھی ایسے جوہرِ قابل ہیں جو دشنام طرازی اور فقرے بازی میں ملکہ رکھتے ہیں۔ پنجاب میں پہلے صمصام بخاری اور پھر میاں اسلم اقبال چرب زبانی کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے اور بالآخر فیاض الحسن چوہان جو پہلے بھی وزیراطلاعات رہ چکے ہیں کی دوبارہ لاٹری نکل آئی۔ وزیراعظم نے وزارت اطلاعات کے لیے اچھی ٹیم کا انتخاب کیا ہے، سید شبلی فراز پڑھے لکھے، نفیس طبع اور سلجھی ہوئی شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ 2015 ء سے خیبرپختونخوا سے سینیٹ کے رکن ہیں لہٰذا ان کا شمار ان سیاستدانوں میں نہیں کیا جاسکتا جو ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹی میں شامل ہوئے۔ شبلی فراز نامور شاعر احمد فراز کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے انٹرنیشنل ریلیشنز میں یونیورسٹی آف کولمبیا سے ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ پہلے پاکستان ایئر فورس میں پائلٹ اور بعدازاں سول سروس میں بھی رہ چکے ہیں۔ شبلی فراز جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ وزارت اطلاعات کو روایتی انداز سے چلانے کے بجائے متحرک کریں گے، یہ بہت بڑا ٹاسک ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک نیا تجربہ کیا گیا کہ فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی برائے اطلاعات بنایاگیاہے۔ باجوہ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے جس انداز سے بطور ڈی جی، آئی ایس پی آر ادارے کو متحرک کیا وہ ملک بھر میں سراہا گیا۔آئی ایس پی آر محض ایک چھوٹا سا دفتر ہوتا تھا، اب اس کی تین منزلہ عمارت ہے جو عاصم باجوہ نے اسی مقصد کے لیے بنوایا تھا۔ اس میں کام کرنے کے لئے سینکڑوں افراد ہیں،خاصی تعداد سویلین کی بھی ہے۔سائبر ونگ، سوشل میڈیا سمیت ہر قسم کی اطلاعات سے متعلق ٹاسک کے لیے باقاعدہ عملہ اور جدید سامان موجود ہے۔ عاصم باجوہ نے بطور میجر جنرل آئی ایس پی آر کی کمان سنبھالی بعد میں جنرل راحیل شریف نے انہیں لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آئی ایس پی آر بھی کور بن گئی ہے۔ اگر آئی ایس پی آر کا وزارت اطلاعات سے موازنہ کیا جائے تو آئی ایس پی آر جدید دور میں اور وزارت اطلاعات پسماندہ دور میں ہے۔لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کا بنیادی کام یہی ہوگا کہ وہ وزارت اطلاعات کو جدید خطوط پر استوار کریں۔ یقینا شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کو یہ ادراک ہو گا کہ اس وقت حکومت اور میڈیاکے درمیان خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔ ویسے تو میڈیا کا کام ہی ایسا ہے کہ حکومتوں اور میڈیا میں اختلافات ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔حکومت کے اہلکار میڈیا پر لفافہ خور ہونے کا الزام لگانے کے بجائے نکتہ چینی کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ دوسری طرف میڈیا جو پہلے ہی مالی طور پر شدید بحران کا شکار ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد اس کا بھرکس نکل گیا ہے۔ان کے اقتصادی مسائل بالخصوص حکومت کے ذمے اشتہارات کے بقایا جات جلد سے جلد ادا کئے جائیں۔سرکاری اشتہارات کی منصفانہ تقسیم کی جائے اور پالیسی کی بنا پر بعض اخبارات کو اشتہارات سے محروم نہ کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اشتہارات کا بجٹ بنانے کی بھی ضرورت ہے۔دوسری طرف میڈیا کوبھی خود احتسابی کا عمل اپنانا چاہئے۔ حقائق کو مسخ کرنا، ایک ایجنڈے کے تحت مخالفانہ خبریں دینا صحافت نہیں ہے۔موجودہ ٹیم کی آمد سے یہ سگنل بھی لیا جا سکتا ہے کہ خان صاحب گالی گلوچ کی سیاست سے اکتا سے گئے ہیں اور ایسی شخصیات کو یہاں لائے ہیں جو شائستہ انداز سے گفتگو کرتی ہیں لیکن اس کے لئے خان صاحب کو اپنے طرز تکلم پر بھی غور کرنا ہو گا کہ ہر سیاسی مخالف کرپٹ نہیں ہوتا اور ہر ناقد صحافی لفافہ خور نہیں ہوتا۔