ترقی یافتہ ممالک نے اپنے معاشی‘ سماجی‘ سیاسی اور تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے ایسے اسے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ابھی تک صدیوں پرانے مسائل سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنے معاشرے سے نکل کر یورپ اور امریکہ کی جنت میں کھو جانا چاہتا ہے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور کوئی پریشان کن مسئلہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا جو پاکستانی حضرات باہر کے کسی ملک سے ہو آتے ہیں یہاں پہنچتے ہی اس ملک کی شان میں قصیدے کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو سن کر ہمیں اپنے آپ سے اپنے وطن سے اور وطن کی ہر چیز سے نفرت ہو جاتی ہے۔ بس یہی جی چاہتا ہے کہ پر لگ جائیں اور ہم اڑ کر امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں پہنچ جائیں۔ مثال کے طور پر ایک اخبار میں مغربی جرمنی کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی ہے جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسائل کیسے حل کئے جاتے ہیں۔ یہ خبر مغربی جرمنی میں پائے جانے والے بوڑھے والدین کے بارے میں ہے۔ بوڑھے والدین کا مسئلہ ہمارے ہاں بھی خاصا قدیم اور پیچیدہ ہے۔ یہ بوڑھے جب ریٹائر ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں تو گھر والوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔یہ کرو‘ یہ نہ کرو‘ یوں سوچو‘ یوں نہ سوچو غرض زمانے بھر کے پند و نصا ئح سے گھر والوں کی ناک میں دم کر دیتے ہیں لیکن ہم انہیں مرتے دم تک گھر میں رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارا سماجی نظام اتنا ناقص ہے کہ ان تکلیف دہ بوڑھوں سے نجات کا کوئی طریقہ نظر نہیں آتا۔ دن رات ان کی تندو ترش باتیں سنو اور ان کی بیماری پر روپے الگ گنوائو۔ اب دیکھئے یورپ اور امریکہ نے یہ مسئلہ کس قدر ذہانت اور عقلمندی سے حل کرلیا ہے۔ ان ممالک میں حکومت نے اولڈ ہومز کھول رکھے ہیں۔ جونہی کسی کے والدین بوڑھے ہونے لگتے ہیں اور کمائی کے قابل نہیں رہتے ان کے نوجوان بچے انہیں اٹھا کر کسی دور دراز کے اولڈ ہوم میں جمع کرا آتے ہیں اور یوں ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ جرمنی میں بوڑھے افراد کے ان مراکز کو سینئر شہریوں کی فائونڈیشن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سینئر شہری اپنی فائونڈیشن میں بھی نت نئے مسائل کھڑے کرنے سے باز نہیں رہتے۔ دراصل یہ ان کی عمر کا تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ان بوڑھے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہمارے بیٹے‘ بیٹیاں ہمیں اولڈ ہومز میں جمع کروانے کے بعد پلٹ کر ہماری خبر نہیں لیتے اور ہمیں یوں بھلا دیتے ہیں جیسے ہم مر چکے ہیں۔ اگر ان بوڑھے افراد کو یہ احساس ہو جائے کہ جدید زندگی از حد مصروف ہے اور کسی کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا کہ بوڑھوں کی مزاج پرسی کرتا پھرے تو یہ لوگ کبھی اس بات کی شکایت نہ کریں۔ دوسری شکایت ان بوڑھے افراد کی یہ ہے کہ انہیں معاشرے سے الگ تھلگ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک بوڑھے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم بوڑھے لوگ یہاں اس لیے جمع ہیں کہ ایک دوسرے کو مرتے ہوئے دیکھیں۔ بھلا کو ئی ان سے پوچھے کہ مرنا تو برحق ہے۔ گھر میں مریں یا کسی اولڈ ہوم میں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ رہی معاشرے سے الگ تھلگ زندگی بسر کرنے کی شکایت تو یہ شکایت سرے سے لغو اور بے معنی ہے۔ یہ بوڑھے لوگ مل کر اپنا معاشرہ کیوں نہیں بنا لیتے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی معاشرے کے ہر پھڈے میں ٹانگ اڑائی جائے۔ دراصل اس عمر میں آدمی کا دماغ چل جاتا ہے اور وہ اول فول بولنے لگتا ہے۔ مرزا غالب نے ٹھیک ہی کہا تھا: اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ‘ انہیں کچھ نہ کہو اولڈ ہومز میں رہنے والے بوڑھے اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں نہایت دل برداشتہ اور دل شکستہ رہتے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے ان اولڈ ہومز کا نام ’’دھوپ کی جنت‘‘ رکھا ہوا ہے لیکن نہ جانے بوڑھے حضرات کیوں مُصر ہیں کہ یہ اولڈ ہومز دراصل ’’موت کے گھر‘‘ ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ فرما لیں کہ بوڑھوں کی سوچ کس قدر منفی ہوتی ہے۔ میری تجویز ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اولڈ ہومز تعمیر کئے جائیں جونہی کسی کے ماں باپ بوڑھے ہو کر معاشی بوجھ بننے لگیں‘ ان کی اولاد انہیں جھٹ کسی اولڈ ہوم میں ڈیپازٹ کروا آئے اور آتے وقت اولڈ ہوم کے گیٹ پر یوں فاتحہ پڑھ آئے جیسے یہ قبرستان کا گیٹ ہو۔ میری اس تجویز کی راہ میں جو چیز حائل ہے وہ یہ فرسودہ تصور ہے کہ والدین کی آخری دم تک خدمت کرنی چاہیے اور ان کے سامنے اونچی آواز میں اف بھی نہیں کرنی چاہیے۔ نہ جانے ہم کب ایسیــ’’ فرسودہ فرمودات ‘‘سے نجات حاصل کرکے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہوں گے۔بقول شاعر غلاف خانہ کعبہ کبھی جزدان لگتا ہے دوپٹہ ماں کے سرپر سورہ رحمن لگتا ہے بہاریں دین و دنیا کی اسی آنچل سے لپٹی ہیں نہ ہو گھر میں قدم ماں کا تو گھر ویران لگتا ہے اولاد تو ایسی بھی ہے کہ میں والدین کی خوش ہو کے خدمت روز کرتا ہوں میں ان معصوم چہروں کی تلاوت روز کرتا ہوں تمنا بھی نہیں فردوس کی آنکھوں کو اب میرے اسی دنیا میں میں دیدار جنت روز کرتا ہوں بچے میرے انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے پھر وہ آگے دوڑ گئے ،میں تنہا پیچھے چھوٹ گیا ۔۔۔۔۔۔ باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک ماں دعا ہے جو صدا سایہ فگن رہتی ہے ۔۔۔۔۔ گھر کی اس بار مکمل تلاشی لوں گا غم چھپا کر میرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے ۔۔۔۔۔ ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں