کیا قانون دانوںمیںسے ڈیڑھ دو درجن بزرگ بھی ایسے نہ تھے جو کہہ اٹھتے وکلاء نے ظلم کیا ہے اور کیا ڈاکٹرز میں سے نصف درجن پروفیسرزبھی ایسے نہیں جونوجوان ڈاکٹرز کو سمجھاتے کہ اپنے اخلاقی وجود کو تھامو ، تم مسیحائی کے منصب سے گرتے جا رہے ہو؟فریقین کو تو چھوڑیے سماج کا رد عمل دیکھ لیجیے ، غیض و غضب میں بھری آوازیں ، اتنی ہی نامعقول ، اتنی ہی غیر متوازن ، اتنی ہی ناشائستہ۔پورے طبقے کو گالی، سارے شعبے کو دشنام۔اس معاشرے کو ہوکیا گیا ہے؟ کیا اسے کسی شیطان نے چھو لیا ہے کہ گلی کوچوں میں ہی نہیں ہمارے وجود میں بھی وحشتیں ناچ رہی ہیں۔ ایک جانب بار کونسل صف آراء ہے اور دوسری طرف ڈاکٹرز ایسوسی ایشن صف بنائے کھڑی ہے۔ ہر گروہ کا اصرار ہے حق کا علم تو صرف اسی نے تھام رکھا ہے اور اب وہ دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں۔ آج صبح دم بوندیں برسیں تو مٹی کی سوندھی خوشبو محسوس کرنے کے فرحت افزاء لمحوں میں خیال آیا:کاش ہر دو گروہ سورۃ مائدہ کی پانچویں آیت کا مطالعہ کر لیں:’’ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو۔انصاف سے کام لو۔یہی تقوی سے قریب تر ہے‘‘ ۔ حادثہ اور اس حادثے پر ہمارا اجتماعی رد عمل بتاتا ہے کہ بطور قوم ہم ایک ہیجان کا شکار ہیں۔ نفرت ، عدم توازن ، تعصب اور متلون مزاجی۔ عصبیت کے عنوان کے تحت یہاں دیوان لکھے جاتے ہیں ، سماجی مطالعہ کسی نے نہیں کیا۔ یہ بھاری پتھر کوئی اٹھائے تو اسے معلوم ہو خرابی کہاں ہے۔ حادثہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں تربیت کا کوئی ادارہ باقی نہیں رہا۔ تربیت کے تین بنیادی ستون تھے ، گھر ، مسجد اور تعلیمی ادارہ۔گھر کی ترجیح اب اخلاقیات نہیں مالیات ہے۔مساجد کی شناخت اب اپنے اپنے مکتب فکر سے کی جاتی ہے ،،تعلیم کاروبار بن گئی اور استاد اس کاروبار کا ایک کردار۔تربیت کا بھاری پتھر اب کون اٹھائے۔اخلاقی انحطاط میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ اہل سیاست اور اہل صحافت نے مل کر پوری کر دی ہے۔ سیاسی رہنمائوںکی گفتگو ہویا ٹاک شوز میں ان کا مناظرہ ، احساس زیاں کی تلخی کے سوا کچھ نہیں۔ مکالمے کا کلچر تباہ کر دیا گیا، عدم برداشت کو فروغ دیا گیا اور وہی معتبر ٹھہرا جس کی زباں سے کسی کا دامن محفوظ ہو نہ دستار۔جو اپنی اور دوسرے کی عزت کے بارے میں جتنا بے نیاز ہو گا ، اس کی مانگ اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ پارلیمان کا احترام بہت ہے لیکن اس پارلیمان میں جو خطابات فرمائے جاتے ہیں کیا آپ کے خیال میں وہ توازن ، اعتدال اور شائستگی پر مبنی مکالمے کو فروغ دیتے ہیں؟خود وزیر اعظم کے خطابات اٹھا کر دیکھ لیجیے ،ان کی کابینہ کا انداز بیان دیکھ لیجیے ، حزب اختلاف کا لب و لہجہ دیکھ لیجیے ، اپنے اہل دانش کی گفتگو سن لیجیے ہر آدمی آتش فشاں بنا پھرتا ہے۔خطیب کا شعلہ بیاں ہونا یہاں آج بھی باعث عز و شرف سمجھا جاتا ہے۔ دھیمے لہجے میں کوئی بات ہی نہیں ۔ہر سو ایک ہیجان ہے۔ یہ ہیجان مختلف اوقات میں مختلف طبقات کے رویوں میں ظہور کرتا ہے اور ہم کمال سادگی سے حیرت کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فلاں طبقے کو کیا ہو گیا ہے۔کسی طبقے کو کچھ نہیں ہوا، اس سماج نے پراڈکٹ ہی یہی تیار کیا ہے۔ پیشہ اب کوئی سا بھی ہو وہ تلاش روزگار کا ایک حوالہ ہے ، رویے سب کے ہی شدت اور ہیجان میں لپٹے ہیں۔حقیقت سے ہم فرار اختیار کر رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اچھے انسان پیدا کر ہی نہیں رہے۔ ہمیں اپنے نصاب تعلیم میں ’ سماجیات‘ کا ایک مضمون متعارف کرانا چاہیے۔یہ مضمون ہر شعبہ زندگی کا طالب علم پڑھے۔ اس میں بتایا جائے کہ سماجی رویے کیا ہوتے ہیں ، اختلاف رائے کے آداب کیا ہیں، تہذیب اور شائستگی کسے کہتے ہیں ، الجھائو سے کیسے بچا جاتا ہے، احترام باہمی اور حفظ مراتب کیا ہوتے ہیں۔آپ گلی محلے میں نکل کر دیکھ لیجیے ہمارا سماج بنیادی سماجی آداب کے باب میں بالکل بے نیاز ہے۔ان قدروں کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دوسرا مسئلہ یہاں قانون کی حکمرانی کا مسلمہ طور پر موجود نہ ہونا ہے۔اقوال زریں بھلے آپ ساری عمر سناتے رہیں حقیقت سے ہم سب آ گاہ ہیں کہ انصاف کا حصول اس ملک میں کتنا مشکل ہے۔جب کسی سماج سے یقین اٹھ جائے کہ ریاست اس کے جملہ حقوق کا تحفظ کرے گی تو پھر خوف اور بے یقینی کا عالم پیدا ہوتا ہے۔ اس عالم میں جتھے بنتے ہیں اور دھڑے بندی فروغ پاتی ہے۔ یہ عمل چونکہ غیر یقینی کے ماحول میں بقاء کے لیے کیا جاتا ہے اس لیے انصاف ، قانون اور اخلاقیات پیچھے رہ جاتی ہیں اور وابستگی کے تقاضے ترجیح بن جاتے ہیں کیونکہ یہ دھڑا اورجتھہ ان لوگوں کے لیے شعوری طورپر ایک فصیل کا کام دیتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کبھی کوئی مشکل وقت آیا تو قانون اور انصاف نے نہیں بلکہ اسی دھڑے اور جتھے نے ان کی داد رسی کرنی ہے۔یہاں سے پھر ایک کارٹل کا کلچر فروغ پاتا ہے۔اس کلچر میں وہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔پاکستان کے تمام ڈاکٹرز اس بات پر متفق ہیں کہ ڈاکٹرز حق پر ہیں اور پاکستان کی تمام بار ایسوسی ایشنز کو پورا یقین ہے وکلاء حق پر ہیں۔سب کو معلوم ہے اپنا گروہ ہی بقاء کی واحد ضمانت ہے ، باقی سب کہانیاں ہیں۔دھڑے اور گروہ بندی کے اس آزار کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نجیب ، نفیس اور شائستہ لوگ دھیرے دھیرے سماج میں غیر اہم اور غیر متعلق ہوتے چلے جاتے ہیں اور معاملات زندگی ان طفلانِ خود معاملہ کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں جن کی واحد خوبی یہ ہوتی کہ وہ دھڑے اور گروہ بندی کے تقاضے اور مفادات کو خوب سمجھتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ ہم زوال مسلسل سے دوچار ہیں اور اس زوال نے ہر شعبے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔قانون کو اپنا راستہ لازمی طور پر اختیار کرنا چاہیے لیکن یاد رکھیے یہ مسئلہ محض قانون کے نفاذ کا نہیں ، یہ ایک سنگین سماجی بحران ہے۔آج اس نے ایک شکل میں ظہور کیا ہے کل یہ کسی اور روپ میں سامنے آئے گا۔ یہ فیصلہ اب ہمیں کرنا ہے کہ ہم المیے کی روح کو مخاطب بنا کر سماج کی تہذیب کرنا چاہتے ہیں یا کسی ایک طبقے کے خلاف اپنا زہر نکال کراپنے حصے کی وحشتوں کا زہر سر بازار رکھ کر ماحول کو مزید تلخ کرنا چاہتے ہیں۔