توقع تھی کہ دل کے ہسپتال پر حملے کے بعد وکلا حضرات اس معزز پیشے پر لگنے والے داغ کو دھونے کے لئے ایک مہربان اور ہمدرد رویے کے ساتھ سماج کے سامنے اپنا موقف رکھیں گے مگر بعض وکلا اور وکلاتنظیموں کی طرف سے اب میڈیا کے خلاف کارروائی کی دھمکیاںاور قانونی عمل میں عدم تعاون باعث تشویش اور باعث تعجب ہیں۔ پاکستان بار کونسل‘ سپریم کورٹ بار کونسل اور لاہور بار کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر کچھ وکلا نے میڈیا کے خلاف نعرے بازی کی اور صحافیوں کا عدالتوں میں داخلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ وکلاء نے صحافیوں اور معاون سٹاف کو اجلاس کی کوریج کرنے کی اجازت نہ دی۔ وکلاء کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی طرف سے میڈیا کو اجلاس سے آگاہ کیا گیا مگر میڈیا کی گاڑیوں کو ہائی کورٹ کی عمارت میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے ایک عہدیدار نے پی آئی سی واقعہ پر کہا کہ ’’ندامت کیسی‘ یہ میڈیا کی کارستانی ہے۔ یکطرفہ تصاویر دکھا رہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر صحافی عدالتوں سے باہر ہوں گے۔‘‘یہ صورت حال اس وقت مزید تشویش کا باعث ہو جاتی ہے جب دیکھتے ہیں کہ تاحال کسی بار کونسل نے اپنے طور پر پی آئی سی واقعہ کے ذمہ دار کسی وکیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ سینکڑوں کے چہرے پہچانے جا سکتے ہیں۔دوسری طرف اسلام آباد بار نے ان سات وکلا کی رکنیت منسوخ کر دی ہے جنہوں نے ہڑتال کی کال کی حمایت نہیں کی۔ وکلا نے اس معاملے پر سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس‘ جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت کا 19دسمبر تک بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔گویا عدالتوں اور قانونی عمل کو آگے بڑھنے سے روکا جا رہا ہے۔ اس طرزعمل سے پاکستانی سماج کے سامنے استحکام برقرار رکھنے کا سوال اٹھ رہا ہے۔ اکتوبر 2018ء میں چند وکلا نے ایک سب انسپکٹر کو کمرہ عدالت میں پیٹنا شروع کر دیا۔ اس واقعہ کی ایف آئی آر لاہور کے تھانہ اسلام پورہ میں درج کی گئی۔ پولیس اہلکار کا مطالبہ تھا کہ اس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں۔ اگست 2017ء میں لاہور ہائی کورٹ میں ملتان بنچ کے وکلا کی جانب سے ججوں کے ساتھ بدتمیزی کیس کی سماعت ہوئی تو وکلاء کی بڑی تعداد ہائیکورٹ کے احاطے میں پہنچ گئی۔ کیس کی سماعت ختم ہوتے ہی وکلا نے احاطے میں چیف جسٹس اور ججوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران کچھ وکلاء نے میڈیا کے نمائندوں کو دھمکایا کہ ان پر وکلا گردی کا الزام لگا کر ان کے احتجاج کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ یکم نومبر 2019ء کو ایک عالمی ابلاغیاتی ادارے نے رپورٹ شائع کی۔ ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں ایک خاتون پر وکلا نے سرعام تشدد کیا۔ مقدمہ درج کرایا گیا تاہم نامزد ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی۔ اس واقعہ کے بعد مظلوم خاندان کی داد رسی کے بجائے شکر گڑھ بار نے احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ سن دو ہزار دس میں پاکستان نے تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کئے تھے۔ اس کنونشن کے تحت پاکستانی سماج خاص طور پر نظام انصاف میں تشدد کا خاتمہ کرنے کا پابند تھا۔ اس پر پہلی رپورٹ پاکستان نے 2016ء میں پیش کی۔ نظام انصاف میں تشدد کا مطلب پولیس کا تشدد لیا جاتا ہے مگر جس تیزی کے ساتھ پاکستان کی عدالتوں میں جھگڑے اور وکلا کی طرف سے تشدد کے واقعات سامنے آ رہے ہیں یوں دکھائی دیتا ہے کہ وکلا تنظیموں پر جلد ہی بین الاقوامی پابندیاں لگ سکتی ہیں جن میں ان کو اپنی برادری کو بنیادی انسانی حقوق کا پابند نہ رکھنے پر قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کا دھاوا کسی بھی قانونی‘ اخلاقی اور سماجی ضابطے کے تحت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس موقع پر وکلا نے جان کنی کی کیفیت میں زیر علاج مریضوں کو علاج کے بنیادی حق سے محروم کیا۔ اس جھگڑے میں چار سے زاید مریض وکلاء کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔ ان میں سے کچھ کے موقع پر موجود لواحقین کی ویڈیو گواہی کی صورت میں موجود ہے۔ اس معاملے کو صرف معافی تلافی سے طے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جرم ہے اور وکلاء سے بہتر کون جانتا ہے کہ مظلوم اگر انصاف کا درخواست گزار ہو تو ملزم کے خلاف کارروائی قانون کا تقاضا ہے۔ اندریں حالات اگر کچھ نوجوان وکلا اپنے دانشمند سینئر حضرات کی بات ماننے کو تیار نہیں تو بہتر ہو گا سینئر وکلا اور بار کونسلیں و بار ایسوسی ایشنیں اس معاملے میں اپنے انتشار پسند جونیئرز کا موقف مسترد کریں‘ ان کی حوصلہ شکنی کریں اور ان کے خلاف موثر کارروائی کریں۔وکلاء اس وقت تک معاشرے کے ہیرو تھے جب تک معاشرے کی جمہوری‘ سیاسی و شعوری نشوو نمامیں ان کی افادیت موجود تھی۔ مدت سے وکلاء اور ان کی تنظیمیں کسی نہ کسی ایسے تنازع میں فریق بن رہی ہیں جو معاشرے کی اجتماعی سوچ اور مفادات کے خلاف ہے۔ وہ خود کو ایک جزیرے میں بند کر رہے ہیں۔ جب جی چاہتا ہے کسی سینئر وکیل کا لائسنس معطل کر دیا جاتا ہے۔ اعتزاز احسن ‘ فروغ نسیم‘ بابر اعوان اور بہت سے دیگر قابل قدر وکلا کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ عدالتوں‘ ہسپتالوں اور پولیس دفاتر کے باہر خصوصی سکیورٹی فورس تعینات کر دی گئی ہے۔ وکلا کے پاس قانونی جنگ لڑنے کی صلاحیت ہے پھر معلوم نہیں وہ کیوں تشدد کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے کی ضد کر رہے ہیں۔ وکلا اور ان کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ سماج میں اپنی افادیت ثابت کریں دوسری صورت میں ریاست اور سماج کسی متبادل کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔انتشار اور قانون کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ کسی صورت خوشگوار نہیں ہو سکتا۔ وکلا تنظیموں کو قانون کی حاکمیت یقینی بنانے کے لئے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔