اسلام آباد( وقائع نگار خصوصی)قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے وکلا کمپلیکس کیلئے لیز پر لی گئی اربوں روپے کی قیمتی اراضی خلاف قواعد ایک ہوٹل کودینے پروضاحت کیلئے سابق صدر سپریم کورٹ بارعلی ظفر،ایمبیسڈر ہوٹل کے مالک ظفراللہ مروت، چیف کمشنر اسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے اور معاونت کیلئے صدر سپریم کورٹ بار کو طلب کر لیا ہے ۔ کمیٹی کا اجلاس گزکنوینر نورعالم خان کی زیرصدارت ہوا، کنوینر نور عالم خان نے آڈیٹرجنرل سے شکایت کی کہ آپکے افسر بغیرتیاری آجاتے ہیں اور ان آڈٹ اعتراضات کو بھی نمٹادیتے ہیں جن کو نمٹانے کے ثبوت نہیں ہوتے ، ڈی اے سی میں ڈی جی آڈٹ کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے ۔ آڈیٹر جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ ہر آڈٹ اعتراض کو مقررہ عمل کے ذریعے ہی نمٹایا جائیگا۔انہوں نے کہاکہ جلد سیف سٹی پراجیکٹ کا پرفارمنس آڈٹ کر کے ر پورٹ دیں گے ۔کنوینر نے کہاکہ سیف سٹی پراجیکٹ کی بے ضابطگیوں میں جو بھی ملوث ہے انکے نام ظاہر کیے جائیں، سنا ہے اسوقت سیکرٹری داخلہ کے دور میں یہ ہوا، بعد میں اسکو چیئرمین نیب بنا دیا گیا۔نور عالم نے نیب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جو کیس نیب کو بھیجا جاتا ہے وہ وہاں جا کر گم ہوجاتا ہے ، جوبھی سیف سٹی پراجیکٹ میں بے ضابطگیوں کاذمہ دار ہے اس کا تعین کیا جائے ، نیب وعدہ معاف گواہ کا ڈھونگ رچاتی ہے ۔ ڈی جی آڈٹ مقبول گوندل نے ایمبیسڈرہوٹل پر بتایاکہ سی ڈی اے نے 2011ئمیں جی فائیو ٹو میں 4500سکوائر یارڈ سپریم کورٹ بار کو33سال کیلئے لیز پر دیا بعد میں ظفر اللہ مروت کو زمین دیدی گئی اور ہوٹل بن گیا ۔سی ڈی اے نے سپریم کورٹ بار کو نوٹس ایشو کیا جس پر سپریم کورٹ بار نے ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔2016ء میں معاملے کی آخری بارسماعت ہوئی۔کنوینر نے کہاکہ معاملے پر چیف جسٹس ہائیکورٹ کو خط لکھ کر انکے نوٹس میں معاملہ لایاجائے کہ لیز کی زمین آگے نہیں دی جاسکتی۔اجلاس میں سابق چیئرمین سینٹ اورسابق ڈپٹی چیئرمین کی جانب سے گاڑیوں کے اضافی استعمال پر اعتراض کامعاملہ زیر بحث لایاگیا اور سپیشل سیکرٹری سینٹ کی وضاحت پر معاملہ نمٹا دیاگیا۔