روس اور یوکرائن کے مابین فروری میں شروع ہونے والی جنگ کو اب 100 دن ہوگئے ہیں اور یوکرائن کی طرف سے روس کے حملے کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ اگرچہ کہ وہ اکیلے لڑرہے ہیں لیکن مالی طور پر اَمریکہ سمیت مغربی دنیا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں اَمریکی سینیٹ نے دو طرفہ تعاون کے تحت 40 بلین ڈالر کا امدادی پیکیج منظور کیا ہے، جس میں سے کم از کم 15 بلین ڈالر یوکرائنی مسلح افواج کو فراہم جائیں گے جبکہ بقیہ رقم کا زیادہ حصہ روس کے ساتھ تنازع میں دوسرے محاذ کے لیے مختص کیا گیا ہے جسے "جیو۔اِقتصادی جنگ" کا نام دیا گیا ہے۔ اِس وقت جنگ کی صورتحال یہ ہے کہ روس یوکرائنی علاقے کے ہلال نما حصے کو کنٹرول کرتا ہے جو یوکرائن کے دوسرے شہر خارکیف سے شروع ہوتا ہے اور علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ شہر ڈونیٹسک اور لوہانسک سے ہوتا ہوا مغرب کی طرف کھیرسن تک پہنچ کر، 2014 میں قبضہ ہونے والے جزیرہ نما کریمیا کو ڈونباس خطے کے ساتھ جوڑنے والا ایک زمینی پل بناتا ہے۔ روس کی کوششوں کی مرکزی سمت اب ڈونباس خطے میں ہے ، جہاں حالات نے اِنتہائی سنگین رخ اِختیار کرچکے ہیں۔ حالیہ لڑائی نے اِیک صنعتی شہر سیوروڈونیٹسک کے اِرد گِرد توجہ مرکوز کرلی ہے جہاں یوکرائنی اَفواج مشرقی لوہانسک کے علاقے کے آخری حصار کے طور پر دفاع کررہی ہیں۔ روسی صدر پیوٹن کے پاس یوکرائن میں اپنی جنگ کے لیے بہت زیادہ وقت (ٹائم لائن) ہے۔ اس کے برعکس یوکرائنی باشندوں کو خدشہ ہے کہ بین الاقوامی دنیا موجودہ جنگ سے اکتاہٹ کا شکار ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری یوکرائنی حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ پیوٹن حکومت کو مراعات دے۔"آپ کے پاس گھڑیاں ہیں ، لیکن ہمارے پاس وقت ہے۔" ایک گرفتار طالبان جنگجو سے منسوب یہ کہاوت، افغانستان کی جنگ لڑنے میں امریکہ کے مخمصے کا خلاصہ اور ایک قابل قبول اعتراف کہ بغاوتیں مختلف سیاسی افقوں اور ٹائم لائنز پر چلتی ہیں ، اور یہ کہ باغیوں کے نزدیک تکنیکی لحاظ سے اعلیٰ امریکی فوج کو شکست دینے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کے مقابلے میں زیادہ دیر زندہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے-یوکرائن جنگ کے تناظر میں اِس جملے کو دوبارہ اِس طریقے سے پیش کیا جاسکتا ہے کہ "یوکرائن میں فیصلہ کن عنصر یہ ہو سکتا ہے کہ کس فریق کے پاس وقت ہو: ایک روسی ڈکٹیٹر جو مغربی دنیا کے بقول مرنے تک اقتدار پر فائز رہ سکتا ہے ، یا یوکرائنی عوام جو اپنی قومی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں"۔ اِس جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اور کونسا فریق اپنے کتنے اَہداف کس حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟ یہ تو وقت بتائے گا مگر اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام دنیا بالخصوص پسماندہ اور ترقی پذیر اِیشیائی اور افریقی ممالک، روس اور یوکرائن کے مابین ہونے والی جنگ سے معاشی طور پر شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ وَرلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے خبردار کیا ہے کہ روس کے یوکرائن پر حملے نے "بے پناہ انسانی مصائب" پیدا کیے ہیں ، لیکن یہ عالمی تجارت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے ، جو کم آمدنی والے ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا۔ اَپنی تجارتی پیش گوئی 2022-2023 میں، ڈبلیو ٹی او کا کہنا ہے کہ 24 فروری کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے عالمی معیشت کے امکانات "تاریک" ہو گئے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کے ماہرین اقتصادیات نے 2022 میں تجارتی مال کی تجارتی حجم میں متوقع اضافہ کی شرح کو 4.7 فیصد سے گھٹا کر 3 فیصد کردیا ہے۔یوکرائن اور روس پر مشتمل علاقہ دنیا کے لیے ایک Bread Basket (یعنی گندم اور مکئی سمیت کھانے پینے کی چیزیں پیدا کرنے والا علاقہ) کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور نہ صرف گندم جیسے بنیادی سامان کے برآمد کنندہ کے طور پر، بلکہ دنیا بھر میں کھاد کے بڑے سپلائرز میں سے ایک کے طور پر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روس تیل ، گیس اور دھاتوں کا بڑا سپلائر ہے جبکہ یوکرائن اور روس مل کر گندم اور مکئی کی اجناس کے سب سے بڑے اَیکسپورٹر ہیں۔ اِن اَشیاء کی کم سپلائی نے اِن کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے جس کا سامنا پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام کررہے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل نگوزی آئیولا نے کہا ہے کہ "خوراک کی چھوٹی سپلائی اور زیادہ قیمتوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے غریبوں کو خوراک کے بغیر رہنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔" مثال کے طور پر افریقہ میں استعمال ہونے والی گندم کا 40 فیصد عام طور پر روس اور یوکرائن سے آتا ہے لیکن تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے بحیرہ اسود میں یوکرائن کی بندرگاہیں برآمدات کے لیے بڑی حد تک بند ہیں۔ کیف اور اس کے اتحادیوں نے ماسکو کو بندرگاہوں کی ناکہ بندی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یوکرائن نے روس کے دوغلے حملے کو روکنے کے لیے مائینز بچھائی ہیں۔ اَقوام متحدہ کے بحران کوآرڈینیٹر امین عواد نے جنیوا میں کہا ہے کہ "ان بندرگاہوں کو کھولنے میں ناکامی قحط کا باعث بنے گی۔یوکرائن تنازعے کا سب سے فوری معاشی اثر، اَشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہے جبکہ روس اور یوکرائن کے مابین جنگ سے خوراک ، توانائی اور کھاد سمیت ضروری سامان کی فراہمی بھی سست روی کا شکار ہوگئی ہے۔ بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے اناج کی ترسیل رکنے سے ممکنہ طور پر سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ سمندر کے ذریعے تجارت میں بھی خلل کی وجہ سے خام مال کی نئی قلت اور افراط زر میں مذید اضافہ ہوسکتا ہے۔وقت کا اہم تقاضا ہے کہ روس اور یوکرائن کے مابین فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور یہ تب ممکن ہے جب اَمریکہ دنیا پر اَپنے اِکلوتے تسلط اور اجارہ داری قائم کرنے کے عزائم ترک کرتے ہوئے روس کے گھیراؤ کی غرض سے نیٹو کی مزید توسیع روک دے تاکہ تنازعے کا پرامن اور پائیدارحل تلاش کیا جائے، وگرنہ دنیا ایک ایسے بحران کا سامنا کرسکتی ہے جو انسانی تاریخ کا سب سے سنگین غذائی بحران کی شکل اِختیارکرسکتا ہے اور عالمی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ معاشی اور غذائی بحرانوں کی وجہ سے ملکوں کے جغرافیا ئی حدود میں ردوبدل ہوجاتاہے۔