مغربی میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ رُوس کسی بھی وقت ہمسایہ ملک یوکرائن پرقبضہ کرنے کے لیے اُس پر حملہ کرسکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ سات ماہ سے روس اپنی مغربی سرحد پر فوجیں اکٹھی کررہا ہے۔ اب تک ایک لاکھ روسی فوج سرحد کے قریب اکٹھی ہوچکی ہے۔ سی این این کے مطابق روس نے سرحد کے قریب ایسا جنگی اور طبی ساز و سامان جمع کردیا ہے جو حملہ کرنے والے فوجی دستوں کو ایک ماہ تک رسد مہیا کرسکتا ہے۔ ماسکو نے حال میں ٹینکوں پر مشتمل کمبائنڈ بٹالین یوکرائن کے قریب تعینات کردی ہیں۔ امریکی میڈیا دعوے کررہا ہے کہ رُوسی حملہ بہت شدید اور آسمانی بجلی کی طرح اچانک ہوگا تاکہ کسی تیسرے ملک کو یوکرائن کی مدد کے لیے آنے کا موقع نہ مل سکے۔ گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ (سیکرٹری آف اسٹیٹ) انٹنی بلِنکن نے ماسکو کو خبردار کیا تھا کہ یوکرائن پر حملہ کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ایک روز پہلے انہوں نے دھمکی دی ہے کہ حملہ کی صورت میں امریکہ روس پر سخت پابندیاں عائد کردے گا ۔ اگلے روز امریکی صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ایسے جامع اور بامعنی اقدامات لینے والے ہیں جن سے صدر پیوٹن کے لیے یوکرائن پر حملہ کرنا’ بہت بہت مشکل ہوجائے گا۔‘ امریکہ ا ور یورپ کے عسکری اتحاد نیٹو کے سربراہ جینز اسٹولن برگ نے بیان دیا ہے کہ رُوس کو یوکرائن پر حملہ کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔دوسری طرف‘ امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اچھی خاصی تعداد میں تربیت دینے کے بہانے یوکرائن میں موجود ہیں۔ چند ماہ پہلے امریکہ نے روس کے جنوب میںواقع بحیرۂ اسود میں اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ بحری مشقیں کیں جن سے خطّہ میں کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ یوکرائن پونے چار کروڑ آبادی پر مشتمل مشرقی یورپ کا ملک ہے اور کی اَف (Kyiv) اس کا دارلحکومت ہے۔رقبہ کے اعتبار سے یوکرائن یورپ کا روس کے بعد دوسراسب سے بڑا ملک ہے۔ اسکا رقبہ فرانس اور جرمنی سے زیادہ ہے۔ مغربی پروپیگنڈے کے برعکس ماسکو نے اس بات سے انکارکیا ہے کہ اسکا ارادہ یوکرائن کے خلاف جنگ چھیڑنے کا ہے۔ البتہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرائن یقین دہانی کرائے کہ وہ مغربی عسکری اتحاد نیٹو کا حصہّ نہیں بنے گا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ رُوس کی فوجوں کی نقل و حمل اور تعیناتی کا مقصد محض یوکرائن پر اپنی شرائط منوانے کی خاطر دباؤ ڈالنا ہے۔ جنگ کرنانہیں ہے۔ اگر اسکا مقصد جنگ چھیڑنا ہوتا تو وہ کھلے عام فوجوں کی نقل و حرکت نہ کرتا۔امریکہ حالیہ برسوں میں کیئف (کی اَف ) کواتنا جدید اسلحہ دے چکا ہے کہ ماسکو کے لیے اس سے جنگ کرنا آسان نہیںہوگا۔ خاصا خون خرابہ ہوگا اور بہت زیادہ جنگی اخراجات آئیں گے ۔ امریکہ اور یورپ کی معاشی پابندیوں کا بوجھ اسکے سوا ہوگا۔ البتہ مغربی ماہرین کوخدشہ ہے کہ صدر پیوٹن ایسی محدود جنگ کرسکتے ہیں جسکا مقصد پورے یوکرائن پر قبضہ کرنا نہ ہو بلکہ اسکے مشرقی حصّہ کو اپنے ملک میں ضم کرنا ہو کیونکہ یوکرائن نسلی اور جغرافیائی طور پر دو حصّوں میں منقسم ہے۔ مشرقی حصّہ رُوس سے متصل ہے جہاں رُوسی نسل کے باشندے رہتے ہیں اور خود کو روس کے قریب سمجھتے ہیں ۔ مشرقی یوکرائن میں واقع سرحدی علاقہ دونباس میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے جسے ماسکو کی حمایت حاصل ہے۔ یوکرائن کے مغربی علاقہ میں پولش نسل کے لوگ آباد ہیں جو یورپ کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔ رُوسی سمجھتے ہیں کہ کیئف (کی اَف) میں امریکی سرمایہ دار جارج سوروس کے ایجنٹ حکمران بن گئے ہیں۔ یوکرائن کی تزویراتی اہمیت کے باعث اس ملک میں امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے بڑے پیمانے پر موجود ہے جو وہاں کی سیاست کو کنٹرول کرتی ہے اورالیکٹرانک آلات کے ذریعے ہمسایہ رُوس کے اندرونی معاملات کی جاسو سی میں ملوث ہے ۔یہاں قائم سی آئی اے مرکز کا ایک بڑا مشن رُوس میں سیاسی عدم استحکام پھیلانا ہے۔ یہ بات ماسکو کے لیے قابلِ قبول نہیں کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہوجائے ۔ اسکے سر پر امریکہ اور یورپ کی فوجیں آکر بیٹھ جائیںاور اسکی سلامتی کے لیے خطرہ بنیں۔ 2008 میں روس جارجیا کے نیٹو میں شامل ہونے کو روکنے کے لیے بھی محدود فوجی کارروائی کرچکا ہے۔ اس برس رُوسی فوجوںکے شمال اور مشرق سے مغرب اور جنوب کی طرف منتقل ہونے سے کریملن کی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔ امریکہ اور یورپ اسے مشرقی یورپ کی جانب سے گھیرے میں لے چکے ہیں ۔ سابقہ سوویت یونین کے چند صوبے جیسے لیٹویا‘ لیتھوینیا‘ اسٹونیا اورمشرقی یورپ کے اکثر سابق اتحادی ممالک جیسے رومانیہ ‘ ہنگری‘ بلغاریہ‘ پولینڈ ‘ چیکوسلویکیاوغیرہ امریکہ اور یورپ کے عسکری اتحاد نیٹو کا حصّہ بن چکے ہیں۔مغربی سامراج یوکرائن کو اپنے عسکری اتحاد نیٹو کا حصّہ بنا کر اس حصار کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اسی عمل کو روکنے کے لیے ماسکو یوکرائن کی سرحد پر فوجیں جمع کررہا ہے۔ بحیرۂ اسودمیں امریکہ کی بحری مشقیں بھی رُوس کا محاصرہ کرکے اسے جھکنے پر مجبور کرنے کی پالیسی کا حصّہ ہے۔ بحیرہ ٔاسود رُوس سے لگنے والا واحد سمندر ہے جو سارا سال تجارت کے لیے کھلا رہتا ہے۔ باقی سمندروں کا پانی سردی میں جم کر برف بن جاتا ہے جہاں بحری تجارت ممکن نہیں ہوتی۔ اسی بحری راستے کو محفوظ بنانے کے لیے کریملن نے 2014ء میں یوکرائن کے ایک ساحلی علاقہ کریمیا پر بزور طاقت قبضہ کرکے اسے اپنے ملک کا حصہّ بنالیا تھا۔امریکہ اور یورپ نے اسکے بعد ماسکو پر کچھ معاشی پابندیاں عائد کیں۔کریمیا میں روسی نژاد باشندوں کی بھاری اکثریت ہے ۔ مشرقی یوکرائن کی روسی نژاد آبادی کو بھی زیادہ سیاسی اختیارات دینے کیلئے2015 میںجرمنی کی کوششوں سے ایک معاہدہ ہوا تھا جسے ’ منسک پروٹوکولز‘ کہا جاتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اگر کیئف (کی اَف )اس معاہدہ کے مطابق مشرقی یوکرائن کو زیادہ مقامی خود مختاری دے تو رُوس کے ساتھ اسکی کشیدگی کم ہوسکتی ہے۔ سب سے اہم‘ یوکرائن کو واضح کرنا ہوگا کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا۔