گزشتہ ہفتے سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ہندوئوں کے مندروں کو مسمار کیا گیا اور نجی املاک تباہ ہوئیں یہ ایک وارننگ ہے کہ ہم مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے بارے میں جو سوچتے ہیں حقیقت اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے ۔حکومت کو ان واقعات کی لفظی مذمت کرنے کے بجائے زمینی حقائق کاادراک کرتے ہوئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر تمام ضروری اقدامات کے حکومت کو فوری طور پر دو اقدام اٹھانے چاہئیں۔ پہلا یہ کہ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر قانونی قدغن لگائی جائے۔ دوسرے حکومت کو مذہبی شدت پسند گروہوں کی طرف سے کھلے عام اور درپردہ نفرت انگیز بیانیہ کے آگے روک لگانا ہو گا، ریاست کو تمام پاکستانیوں کو واضح اور واشگاف پیغام دینا ہو گا کہ حکومت تمام شہریوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے اور ہر صورت اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔ بغیر مذہبی عقائد میں امتیاز برتتے ہوئے ریاست کو یہ باور کروانا ہو گا کہ اکثریتی مذہب کے تشدد پسندوں کے اس بیانیہ میں کوئی حقیقت نہیں کہ اقلیتوں کی سرگرمیاں پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ حب الوطنی کا معیار کسی کا مذہب ہو سکتا ہے نہ ہی غیر مسلموں کی پاکستان کی شہریت ختم کرنا ۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اشرافیہ ماضی میں اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے مذہبی نسلی اور ثقافتی امتیازات کو فروغ دیتی رہی ہے۔اور مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے، معاشرے میں اخلاص ہم گزاری کے جذبات مخدوش ہو چکے ہیں۔ جو عموماً سماج میںنفرت اورتفرقات کے خلاف ڈھال کا کام کرتے ہیں، ہمگزاری ہی اصل میں انصاف میں یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کی قدر کرنا سیکھے اور دوسروں کو مشکلات اور مصائب سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہمگزاری خلوص کا رویہ ہی اقوام میں صحت مند فکری و تخلیقی سرگرمیوں کو ماپنے کا پیمانہ مانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے علاقائی نسبت اور مذہبی یا سیکولر فکر کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے ،اگر کوئی معاشرہ کسی قسم کے خبط عظمت کا شکار ہے یا اجتماعی نفرت انگیز رویے میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس معاشرہ میں اخلاص اور ہم گزاری کے بنیادی جذبات کا شدید فقدان ہے۔ ان دو اقدار سے محرومی معاشروں کو مایوسی اور بحران میں دھکیل دیا کرتی ہے یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہمدردی ہمگزاری کا متبادل نہیں ہو سکتی ہے ۔ہمدردی تو ایک ہیجانی کیفیت کا نام ہے جو صرف وقتی طور پر ریلیف مہیا کرسکتی ہے۔ جبکہ صحت مند معاشرے کو مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے اور دکھ درج میں سانجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ میں عوام کے حوالے سے ہمگزاری کا جذبہ پایا جاتا ہے نا ہی حکومت نے اسے عوام میں فروغ دینے کے لئے کبھی قابل عمل اقدام کیا ہے۔ صحبت اور ہمگزاری کے جذبات کے ہمارے نظام تعلیم سے مخدوش ہونے سے معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ نسل کشی پر اتھارٹی رکھنے والے معروف سکالر گری گورے ایج سٹیٹن نے نسل کشی کے 10درجات گنوائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ نسل کشی ایسا بہیمانہ اقدام کبھی بھی انفرادی یہ چھوٹے گروہوں کی سطح پر انجام نہیں پاتا بلکہ اس میں بڑی اکثریت یہاں تک کہ کسی نا کسی طرح حکومت یا اس کی پالیسی بھی ملوث ہوتی ہیں۔ نسل کشی کا پہلا مرحلہ تو درجہ بندی کا ہے ،جہاں معاشرہ پہلے مختلف نسلی اور مذہبی تفرقات میں بٹ جاتا ہے۔ اگلے تین مراحل میں غیر کا تصور علامتی تفریق اور توہین آمیز رویوں کی صورت گری ہوتی ہے جبکہ پانچویں مرحلے میں دشمن کی نشاندہی کر کے اس کو الگ کیا جاتا ہے ،چھٹے مرحلے میں ابتدائی پراپیگنڈے کے ذریعے نفرت کو مقبول عام بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مخالفین نے دانشور طبقہ اور بااثر طبقات کی بیخ کنی شروع کی، اس کے بعد مسلح گروہوں اور تنظیموں کی تشکیل کا عمل شروع ہوتاہے۔ بیخ کنی کے ابتدائی مراحل میں مخالفین کے خلاف تشدد سے انکار کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔گریگوری (gregory)نے 11واں مرحلہ مکمل فاتح کا بیان کیا ہے ،جس میں اپنی کامیابیوں کو مزید نسل کشی کاجواز بنایا جاتا ہے اور اس مرحلے میں شدت پسندوں کو قومی ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے دنیا بھر میں یہ درجہ بندی ایک نہ ہو مگر طریقہ کار پوری دنیا میں ایک ہی ہے اور نتیجہ بھی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان میں بہت سی علامات اس درجہ بندی سے ملتی ہیں، بھارت قومیت پسندی کی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے مگر پاکستان بھی بھارت سے بہت زیادہ پیچھے نہیں۔ گریگوری نے تشدد پسندی کے فروغ میں ریاستوں کے مجرمانہ کردار کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں صورتحال تشویشناک ہے۔ وزیراعظم نے گھوٹکی کے سانحے میں بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اس واقعے کو پاکستان کا سافٹ امیج متاثر کرنے اور وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر پر اثرانداز ہونے کی گھنائونی سازش قرار دیا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان کو حقیقت سے انکار کہنا غلط نہ ہو گا۔ پاکستان میں ہندو اقلیت کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی شدت پسندی کے آگے بند باندھنا ہو گا ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایک منظم مربوط بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ جہاںتمام شہریوں کے ساتھ ان کے مذہبی نسلی امتیازات کے بغیر یکساں سلوک کیا جائے۔ علاقائی اور نسلی مساوات کے فروغ کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے تعلیمی نصاب کو ازسر نو مرتب کرنا ہو گا ،پاکستان میں غیر مسلمانوں کو پاکستان کے لازمی جزو کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا ،غیر مسلموں کو بھارت یا مغرب سے نتھی کرنے کا مطلب تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہو گا ،غیر مسلم بھی اسی دھرتی کے بیٹے ہیں ان کی ناقابل فراموش خدمات پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔