رانا ثنا اللہ منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ اتنا احمق توکوئی عام مجرم بھی نہیں ہوتا کہ وہ موٹر وے پہ جہاں نگرانی اور ناکوں کی صورتحال عام شاہراہوں سے کہیں بہتر ہو بیس کلو منشیات اپنی گاڑی میں لے کر سفر کرے چہ جائیکہ ایک ایسا جہاندیدہ بلکہ مرغ باد نما قسم کا سیاست دان جس کی مخالف جماعت برسر اقتدار ہو اور فل موڈ میں ہو۔ایسے حالات میں جب گرفتاریوں کا موسم عروج پہ ہو اور حکومت پہلے سے کہیں زیادہ جارحانہ موڈ میں نظر آتی ہو،رانا ثناء اللہ کی اس مبینہ حرکت کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ایک تو انہیں اپنے انتظامات پہ پورا بھروسہ تھا جیسا کہ نون لیگ کو پنجاب میں اپنی طویل حکومت کے باعث انتظامیہ اور بیوروکریسی پہ ہونا چاہئے،یا پھر انہوں نے وہی ترکیب آزمائی ہے جو آج کل پریکٹس میں ہے۔ یعنی جرم کھربوں کی بدعنوانی اور خیانت کا لیکن سزا اقامے پہ۔ایسے میں آپ کو کئی فائدے حاصل ہوجاتے ہیں۔ عوام کی نظر میں آپ سیاسی انتقام کا نشانہ بنے مظلوم بن جاتے ہیں اور ایک جھوٹے مقدمے میں باعزت بری ہوکر اپنے بقیہ جرائم پہ پردہ بھی ڈال سکتے ہیں۔قانون میں بڑے بڑے خلا اسی دن کے لئے رکھے جاتے ہیں کہ انہیں وقت پڑنے پہ آپ کی طاقت اور سرمائے سے بھرا جاسکے۔ رانا ثنا اللہ پہ قائم نیا مقدمہ سچا ہے یا جھوٹا، اس کا فیصلہ عدالت کرے گی لیکن مجھے اپنی جائے پیدائش و خواری کراچی یاد آگیا۔ کراچی کا ذکر ہو اور ایم کیو ایم کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی دونوں کو ایک دوسرے کی گردن پہ سوار دیکھا جسے محاورے کی رعایت سے لازم و ملزوم بھی کہا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ، دیکھتے ہی دیکھتے ایک آسیب زدہ شہر میں تبدیل ہوگیا۔ مہاجر فلسفے اور اس کے جائز ناجائز ہونے کی بحث کو ایک طرف رکھئے،اس کی ترکیب استعمال پہ غور کیجیے۔پورے شہر پہ ایک سیاسی پارٹی کا مکمل کنٹرول تھا اور لندن میں بیٹھے ایک شخص کی ہیلو پہ لاکھوں کے مجمع کو سانپ سونگھ جاتا تھا۔ وہ بلاتکان گھنٹوں بولتا تھا لیکن کسی ماتھے پہ شکن آتی نہ کوئی اکتا کر پہلو بدلتا۔اسی کی ایک فون کال پہ سارا شہر بھائیں بھائیں کرنے لگتا۔ بے داغ کنٹرول کا آخر کیا راز تھا؟لاہوری بڑے فخر سے ایک محاورہ بولتے ہیں جس کی رو سے آپ عدم سے وجود میںوایا لاہور ہی آسکتے ہیں۔ یہ محاورہ اہلیان کرانچی بول ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ یہاں پیدا ہونے والا زندگی بھر پورا شہر دیکھنے کا دعوی نہیں کرسکتا۔اتنے بڑے شہر پہ ایک جماعت کا کنٹرول بڑی ریسرچ کے بعد ترتیب دی گئی ایک حکمت عملی سے ممکن ہوا تھا۔ اور وہ حکمت عملی تھی مافیا کی طرز پہ شہر کو چھوٹے چھوٹے یونٹوں اور سیکٹروں میں تقسیم کرنااور ان پہ انچارج مقرر کرنا پھران پہ کڑی نگرانی رکھنا کہ وہ اپنے یونٹوں پہ کڑی نگرانی رکھ رہے ہیں یا یونہی کھڑے کھڑے سستا رہے ہیں۔ بس پھر چل سو چل۔ہم نے ایسے ہی کڑی نگرانی والے مافیا طرز کے شہر میں آنکھ کھولی۔پھر بارہ مئی بھی دیکھا اور بلدیہ فیکٹری بھی اور روزانہ کی بنیاد پہ چھوٹے چھوٹے بارہ مئی اور بلدیہ فیکٹری ایسے سانحات بھی۔ روزانہ کی لاشوں کا سکور جس دن پانچ سے کم ہوتا وہ دن پر امن سمجھا جاتا۔ ایم کیو ایم کو بلاشبہ سیاسی حمایت حاصل تھی۔ عوام ہی نہیں وفاق میں برسراقتدار ہر جماعت کی۔ اس وقت ایم کیو ایم کی فلاسفی، مہاجر شناخت کا مسئلہ یا وفاق میں بیٹھے سیاسی جغادریوں کی سیاسی مصلحتیں اس وقت میرا موضوع نہیں ہیں۔موضوع یہ ہے کہ بارہ مئی اور بلدیہ فیکٹری جیسے واقعات میں ملوث کتنے مجرموں کو پھانسیاں ہوئیں؟کتنے مظلوموں کے خون کو انصاف ملا؟تیس سالہ دہشت گردی کے عینی گواہ کم تو نہیں تھے۔ سب ، سبھی کچھ جانتے تھے لیکن کیفر کردار کو کون پہنچا؟صولت مرزا ، جس نے اعترافی بیان دیا اور اسے ٹوکن کے طور پہ لٹکا دیا گیا۔کراچی میں جب بھی آپریشن ہوا،ماورائے عدالت قتل اپنے عروج پہ پہنچے۔ ان میں سے اکثر معصوم نہیں تھے۔ وہ تھے جن کو لٹکایا جانا تھا لیکن انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے مناسب مواد موجود نہیں تھا۔نہ گواہ نہ ثبوت نہ استغاثہ۔ایک گورنر آگ و خون پہ بیٹھا گٹار بجاتا رہا جس پہ اسی نوعیت کے باسٹھ مقدمے تھے۔ایسے ہیرے ایم کیو ایم میں بکھرے پڑے تھے۔لیکن کیا وہ صرف ایم کیو ایم میں تھے؟اس کا جواب مجھے پنجاب آکر ملا۔شاید سندھ میں بھی مل جاتا اگر میری رہائش رتو ڈیرو کے آس پاس کسی ایم پی اے کے ڈیرے کے آس پاس ہوتی۔لاہور منتقل ہونے کے کچھ دن بعد ایک سرکاری نوعیت کی تقریب میں ایک نامور صحافی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔میرا دل اس حوالے سے شکوے سے بھرا تھا کہ کراچی میں آگ لگتی ہے لیکن لاہور کے صحافیوں کے کا ن پہ جوں نہیں رینگتی۔یہی شکوہ ان کے گوش گزار کیا اور حال ہی میں ان کی نائن زیرو یاترا پہ بھی احتجاج کیا۔ انہوں نے اپنی پلیٹ سے بوٹی اٹھا کر میری پلیٹ میں ڈال دی اور رسان سے پوچھا ۔کچھ اور چاہئے؟ اس کے بعد پنجاب میں ایسے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی جو کسی نہ کسی طرح قتل، اغوا ڈکیتی اوردیگر وارداتوں میں یا تو ملوث تھے یا اس کے شکار ہوئے۔ان سب میں قدر مشترک ایک ہی جگہ تھی اور وہ تھا کسی نہ کسی ایم پی اے کا ڈیرہ۔ ان میں وہ صاحب بھی تھے جن کے ذکر خیر سے کالم کی ابتدا ہوئی۔چند سال لاہور میں رہائش کے بعد میں پورے انصاف کے ساتھ یہ کہنے کو تیار ہوں کہ کراچی جیسے شہر کو اپنی مافیا طرز کی حکمت عملی سے کنٹرول کرنے اور سارے ملک پہ اپنی دہشت گردی کی دھاک بٹھانے والی ایم کیو ایم ،پنجاب کے اسی چال چلن کے ایک ایم پی اے کے ڈیرے کی مار بھی نہیں تھی۔شاید فاضل صحافی بھی ایسا ہی سمجھتے ہوں کہ بی بی ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے۔ مخالفوں پہ کس طرح کیس بنائے جاتے ہیں۔عدالتوں کو کیسے قابو کیا جاتا ہے۔کیسے سر اٹھانے والوں کا سر کچلا جاتا ہے کہ اس کی سات پشتیں بھی یاد رکھیں اور اس کے لئے مسلسل اقتدار میں رہنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ سیاست جرائم پیشہ افراد کی آخری پناہ گاہ کیوں ہے۔اس کو سمجھنے کے لئے ڈیرے کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے اور جو اس کو سمجھتے ہیں ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جب سیاسی چھتر چھاوں تلے کوئی بڑا مجرم کسی طرح پروں پہ پانی نہ پڑنے دے تو اسے کسی ایسے جرم میں دھر لیا جاتا ہے جس کے پکے ثبوت پہلے ہی سے تیار ہوں۔ اس کو چاہے تو قانونی دہشت گردی کہہ لیں لیکن اس سے ایک عادی مجرم معصوم ثابت نہیں ہوجاتا ۔ ہاں وہ کہہ سکتا ہے کہ ہوں لائق تعزیر پہ الزام غلط ہے۔