غضب خدا کا چڑیوں کا چوگابھی مہنگا ہو گیا۔ انسان کیا کھائیں گے۔ میری اہلیہ گھر کی چھت پر چڑیوں کے لئے دانہ ڈالتی ہے، وہ علیل تھی تو اسے ہسپتال میں صرف ایک بات یاد تھی کہ آیا ان بے زبانوں کو خوراک دی جا رہی ہے۔ ان پرندوں کو عام طور پر جوار کا دانہ ڈالا جاتا ہے۔ رمضان سے پہلے یہ 65روپے کلو تھا آج 95روپے ہے۔ ہو سکتا ہے ہول سیل میں سستا مل جائے۔ ہم گزشتہ دنوں مرغی کے گوشت کا واویلا کرتے رہے۔اس خطے کا من بھاتا کھابا بکرے کا گوشت ہے جو اس وقت 1400روپے کلو مل رہا ہے اور اگر آپ کسی نام والی دکان سے اس گوشت کا کوئی خاص حصہ طلب کریں مثلاً ران‘ دستی یا پٹھ تو یہ آپ کو تقریباً 1600روپے میں پڑے گی۔ مجھے نہیں معلوم اس برس قربانی کے جانوروں کی قیمت کیا ہو گی۔ مجھے بتائیے ان حالات میں کیسے یقین کیا جائے کہ ملک کی معیشت سنبھل گئی ہے۔ اور یہ دو چیزوں کی مثال میں نے ایسے ہی سمجھنے کے لئے دے دی، وگرنہ زندگی کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں ہے بلکہ اس نے بڑے بڑے عزت داروں کے کس بل نکال دیے ہیں۔ایسے میں کسے فرصت ہے کہ زندگی کے اہم مسئلوں پر بات کرے۔ اگر حکومت کی نام نہاد انتخابی اصلاحات کی 13شقوں کو الیکشن کمشن نے غیر آئینی قرار دیا ہے تو یہ ایک بہت تشویش ناک معاملہ ہونا چاہیے مگر پیٹ میں روٹی ہو تو کوئی اس پر بات کرے۔ ایک زمانہ تھا جب خا ل خالایسی مثالیں ملتی تھیں کہ فلاں کی غربت کا یہ حال ہے کہ پانی کے ساتھ روٹی کھاتا ہے یعنی اسے کھانے میں لذت اور طاقت ڈالنے کے لئے سالن تو کجا چٹنی تک دستیاب نہیں ہے۔ اب اس طرح کی بیسوں مثالیں ملتی ہیں۔ لوگ بچے سکول سے اٹھا رہے ہیں سکول بند ہو رہے ہیں کہ کورونا میں ان کا وجود ممکن نہیں رہا۔ تعلیم کو دہری مار پڑ رہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم مفکرانہ اور مدبرانہ شان کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس پر بہت وعظ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بچے سٹنٹڈ رہ جاتے ہیں یعنی ذہنی طور پر ایک طرح سے معذور ہوتے ہیں۔ معذور نہ سہی‘ خوراک کی کمی کی وجہ سے ان کے ذہن پوری طرح پروان نہیں چڑھتے ۔قومیں اپنے بچوں کا اتنا لحاظ کرتی ہیں کہ وہ ان کی بہبود کا بندوبست کرتی رہتی ہیں۔بچوں کو خصوصی الائونس دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی غذا کا خیال رکھا جائے۔ہمارے ایک دوست امریکہ میں تھے‘ نہایت باتدبیر ‘ ذ ہین اور دیانت دار وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں پنیر اتنا وافر ہوتا ہے کہ خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انہوں نے بتایا بچوں کو ریاست پنیر فراہم کرتی ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر توانا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اتنا ہوتا تھا کہ ہم میاں بیوی کی بھی کفالت کر جاتا تھا۔ امریکہ کی چھوڑیے‘ ہمارے پاکستان میں پولٹری ایسوسی ایشن والوں نے بتایا کہ انہوں نے چند سکول منتخب کر کے تجربہ کیا۔ وہاں کے بچوں کو روزانہ دوپہر کو ایک انڈہ یا مرغی کا ایک ٹکڑا فراہم کیا گیا۔ پھر سائنسی طور پر ٹسٹ کیا گیا کہ جن سکولوں کے بچوں کو یہ سہولت دی گئی ان کی ذہنی صلاحیت دوسرے سکول کے بچوں کی نسبت کہیں بہتر تھی۔ وہ تو یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مرغی کا گوشت اور انڈے آنے والی نسلوں کی ذہنی صلاحیت کے لئے کتنے اہم ہیں۔اب یہ جو حکومت آئی ہے جس کا سربراہ مستقبل کی نسلوں کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ چاہتا تھا‘اس کے زمانے میں انڈے اور مرغی دونوں ناپید ہو گئے ہیں۔انڈں کی قیمت دوگنی ہوئی مرغی تو پر لگا کر آسمانوں پر اڑنے لگی۔ اللہ میڈیا کی خیر کرے جنہوں نے منفی پروپیگنڈہ کر کے مرغی کی قیمت کو واپس زمین پر لانے میں مدد دی۔ چند دن پہلے جو تفصیل آئی اس کے مطابق گندم‘ چینی‘ دودھ ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا ہم اس بات پر فخر کرنے لگے کہ اب ہمارے ہاں پنیر کی عیاشی نہیں ہو گی۔ آپ ذرا بازار جا ئیے، ہر ضرورت کی چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ یہ عیاشی پر پابندی نہیں‘ یہ ملک کے مستقبل کی صلاحیتوں کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرتا ہے۔ ضرورت کی کوئی چیز ایسی نہیں جو مہنگی نہ ہوئی ہو۔ ہم کیسی قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا پناہ گاہوں میں پلنے والے ملک چلا سکیں گے یا ملک چلانا صرف ایک طبقے کا کام رہے گا۔ اس طبقے کے بارے میں کیا کہوں؟ معیشت تباہ نہیں ہو رہی‘ ملک تباہ ہو رہا ہے‘مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے‘ کورونا کی وجہ سے تعلیم عام نہیں ہو رہی اور مہنگائی کی وجہ سے صلاحیتوں کو مزید زنگ لگ رہا ہے۔ مہنگائی صرف غربت کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی ایک پوری نسل کا مسئلہ ہے‘ پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ مجھے یقین ہے ایک وقت آئے گا جب دنیا والے تجزیہ کرکے بتا رہے ہوں گے کہ ایک وقت ایشیا کے ایک ملک پر ایسا آیا تھا جب اس کی ایک پوری نسل کی ذہنی ترقی رک گئی تھی۔ جی ہاں صرف معاشی ترقی نہیں بلکہ پوری نسل کی ذہنی ترقی۔ ہمارا سب کچھ خطرے میں ہے۔ جینا مشکل ہو گیا ہے۔ کسی کو کیا لینا کہ آپ کے زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہے یا آپ کا بیلنس آف پے منٹ درست ہو گیا ہے یا آئی ایم ایف نے آپ کو اچھی کارکردگی کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے۔ اس بات سے بھی غرض نہیں کہ پاکستان امریکہ کو اڈے دے گا یا نہیں۔ آج بھی کسی سے پوچھ لیجیے۔کسی کو حکومت کی کسی بات کا یقین نہیں۔ نہ آنے والے انتخابات سے غرض ہے یعنی اس لحاظ سے کہ ان کے لئے کیا اصلاحات ہو رہی ہیں۔ نہ اس بات کا خوف ہے کہ کہیں امریکہ بہادر ہم پر کاٹھی گانٹھ کر نہ بیٹھ جائے۔ غربت نے ایسا مارا ہے کہ شیخ سعدی کی وہ بات یاد آتی ہے کہ ا ب کی بار دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ یار عشق کرنا بھی بھول گئے۔ہمارے بڑے چائو تھے‘بڑے عشق تھے۔ فلسطین‘ کشمیر اور جانے کیا کیا کچھ۔ اب تو اپنی پڑی ہے اور ہم نے انسانوں ہی کے لئے زندگی مشکل نہیں کر دی‘ چڑیوں کے منہ سے بھی چوگاچھین لینے کی کوشش کی ہے۔