کورونا وائرس پرمحققین کرام کی تحقیقات سے مجھے محترم میجر ریاض حسین ملک یاد آگئے۔جی ہاں وہی 1971 کی ’’ البدر‘‘ والے میجر ریاض۔میجر صاحب میرے استاد بھی ہیں ، بزرگ بھی ہیں اور ان سے بے تکلفی کا رشتہ بھی ہے۔عمر کے اس حصے میں بھی ،جب ان کے دوستوں کے بچے بھی جرنیل بن چکے اور ان کا اپنا بیٹا بھی فوج بھی اعلی منصب پر پہنچ چکا، ان کے مزاج کی شگفتگی اور تازگی برقرار ہے۔ان کے ساتھ بیٹھ جائوں تو کمرہ قہقہوں سے گونجتا رہتا ہے۔ان کی محفل کی تازگی سے میر یاد آتے ہیں: کس نے سن شعرمیر ، یہ نہ کہا کہیو پھر ، ہائے کیا کہا صاحب یہ واقعہ میجر صاحب کی جوانی کا ہے۔ اپنی یونٹ کے ساتھ وہ کسی دور افتادہ علاقے میں تعینات تھے۔کھانا پکانے کے لیے ڈبہ بند دال کھولی گئی تو اس میں سنڈیاں یا کیڑے پڑ چکے تھے۔پریشانی کے عالم میں میجر صاحب کو خبر کی گئی۔میجر صاحب نے کہا پریشان کیوں ہوتے ہو، ، پہلے ہم نے دال کھانی تھی اب اللہ نے ساتھ قیمے کا انتظام بھی کر دیا۔ سٹاف پریشان تو پہلے ہی تھا، اب حیران و پریشان ہو گیا ۔ میجر صاحب نے صوبیدار صاحب کو بلوا بھیجا۔ صوبیدار صاحب تھوڑی بہت حکمت بھی جانتے تھے اور یونٹ کے نوجوان طبی امور میں ان کے مشورے پر اعتبار کرتے تھے۔ وہ پہنچے تو میجر صاحب نے کہا : ’’ صوبیدار صاحب دال میں کیڑے مکوڑے نکل آئے ہیں، جوان پریشان ہیں ، متبادل خوراک کا انتظام آپ جانتے ہیں کہ نہیں ہے اور میں انہیں دال کی بجائے دال قیمہ کھلانا چاہتا ہوں۔ آپ طبی نکتہ نظر سے جوانوں کو دال قیمے کی افادیت سمجھائیں۔صوبیدار صاحب معاملہ سمجھ گئے۔ انہوں نے کہا، سر اس علاقے میں یہ والی سنڈیاں تو نری صحت ہیں۔ اس علاقے کے لوگوں کی صحت کا راز ہی یہی سنڈیاں ہیں۔ یہ سنڈیاں تو صحت کا خزانہ ہیں ۔ صدیوں پہلے جب لشکر مہم پر نکلتے تو یہ سنڈیاں انہیں وبائی امراض سے محفوظ رکھتی تھیں۔ یہ تو بادشاہوں کی خوراک ہے سر۔ ان کو کھانے والا سیدھا جنت میں جائے گا سر۔ اور میرا خیال ہے آج ہی چلاجائے گا سر۔‘‘ غور کریں تو معلوم ہو گا جس طرح یونٹ کی رہنمائی فرمائی گئی تھی ایسے ہی کورونا پر ہماری رہنمائی فرمائی جا رہی ہے۔ گھر پر رہنا تو بہت اچھا ہے سر۔ باہر نکلیں تو کورونا ہو جاتا ہے ۔ گھر پر رہیں اور محفوظ رہیں ۔ انتہائی ضروری نہ ہو تو گھر سے باہر نہ نکلیں ۔گھر پر رہنے سے آپ بیماریوں سے محفوظ رہیں گے سر۔ لیکن گھر سے نہ نکل کر آپ کی قوت مدافعت ختم ہو جائے گی سر۔ گھر سے نکلنا بہت ضروری ہے ۔ انتہائی ضرورت کے بغیر بھی گھر سے باہر نکلا کریں ۔ ورنہ بیماریاں آپ کو گھیر لیں گی سر۔ باہر نکلیں تو کسی سے مصافحہ نہ کریں سر۔ چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں سر۔ مصافحہ کرنے سے آپ کو کورونا ہو جائے گا ۔ لیکن سر مصافحہ کرنے سے قوت مدافعت بڑھتی ہے۔ اینٹی باڈیز بنتے ہیں۔ مصافحہ کرنے اور ملنے جلنے سے بیماریوں کے خلاف آپ کی قوت مدافعت طاقت پکڑتی ہے سر۔آپ ضرور مصافحہ کیا کریں سر۔ بچوں کو گھر پر رکھیں سر۔ بچوں کو بہت خطرہ ہے سر۔ انہیں پارکوں وغیرہ میں نہ جانے دیں سر۔ حکومت نے آپ ہی کی حفاظت کے لیے پارکوں میں جھولوں میں پابندی لگا رکھی ہے۔اس پابندی کا احترام کریں سر۔ لیکن اگر آپ بچوں کو باہر نہیںلے جائیں گے اور اگر وہ مٹی سے نہیں کھیل پائیں گے تو ان کے بیمار ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے سر۔آپ کو سانس کی تکلیف ہوتی ہے یا آپ الرجک استھما کا شکار ہیں تو آپ ’’ ہائی رسک‘‘ پر ہیں سر۔ ایسے میںآپ کو کورونا ہو گیا تو آپ کے بچنے کے امکانات کم ہوں گے سر۔ لیکن سانس کی تکلیف والوں کے کورونا اتنا خطرناک نہیں ہے سر۔ نیویارک کے لینکس ہل ہسپتال کی تحقیق کے مطابق نیویارک میں جہاں کورونا اپنے عروج پر تھا کرونا سے متاثر ہونے والوں میں صرف تین مریض سانس کی تکلیف اور استھما کے مریض تھے۔ آپ کو دمہ ہے یا سانس کی تکلیف ہے تو آپ ہائی رسک پر نہیں ہیں سر۔آپ کو کورونا ہو بھی جائے تو آپ کے بچنے کے بہت امکانات ہیں سر۔ کورونا کا مریض اگر انتقال کر جائے تو اس کی لاش کے قریب بھی نہ جائیں سر۔ لاش سے بھی کورونا پھیل سکتا ہے۔ آپ مریض کے لواحقین میں سے ہیں تو لاش لینے پر اصرار نہ کریں ۔ہسپتال انتظامیہ کو خود تدفین کرنے دیں سر۔ لیکن کورونا سے مر جانے کی لاش کو چھونے سے آپ کو کورونا لاحق ہونے کا خطرہ نہیں ہے سر۔اس لیے آپ چاہیں تو اپنی رسومات کے مطابق تدفین خود کر سکتے ہیں۔کورونا بہت خطرناک ہے سر۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ میں علامات نہ ہوں اور آپ کو کورونا ہو چکا ہو ۔اس صورت میں آپ کورونا کا کیریئر بن جائیں گے سر اور دوسروں کو بیمار کرتے پھریں گے۔لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ میں کورونا کی علامات نہیں ہیں تو آپ کیریئر نہیں بن سکتے سر۔ اس صورت میں آپ سے کسی اور کو کورونا نہیں ہو سکتا سر۔ آپ گھر سے باہر نکلیں تو واپس آ کر ڈیٹول اور سینیٹائزر ضرور استعمال کریں سر۔ لیکن سر اگر آپ نے ڈیٹول اور سینٹائزر استعمال کیا تو آپ کے وائٹ بلڈ سیل کو نقصان پہنچے گا۔ آپ انہیں استعمال نہ کریں سر۔ آپ صرف صابن سے ہاتھ دھو لیا کریں۔ یہ تو محض ایک فلو ہے سر۔ یہ اتنا خطرناک نہیں ہے سر۔ اس سے سو میں سے بمشکل ڈیڑھ بندہ مرتا ہے سر۔ لیکن سر یہ تو بہت خطرناک ہے۔ اس نے چھوڑنا کسی کو نہیں سر، یہ سب کو لگے گا سر۔ابھی تو ہماری توقع سے کم لوگ مرے ہیں سر۔ یہ چند مثالیں ہیں جو میں نے پیش کر دیں ، ورنہ ایسی تحقیق کے تو دفتر کھلے پڑے ہیں۔ کورونا ایک نئی بیماری ہے اور اس کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے اگر لمحہ لمحہ نئی چیزیں سامنے آ تی رہیں تو یہ ایک قابل فہم بات ہے ۔ معاشرے کی شرح خواندگی اور معاملہ فہمی تو ہمارے سامنے ہے۔ حکومت کو حفظان صحت کے باب میں بنیادی اور سادہ باتوں کوتو کم از کم کسی ابہام اور تضاد کے بغیر دوٹوک انداز سے عوام کے سامنے رکھنا چاہیے تھا۔