حسرت وصل ملی لمحہ بے کار کے ساتھ بخت سویا ہے مرا دیدہ بیدار کے ساتھ کیا کرے جذبہ وارفتگی شوق نہاں دل کو گل رنگ کیا گوشہ پرخار کے ساتھ آج میں ایک ایسی ہستی کا ذکر جمیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی طرح آپ کو بھی حیرت میں ڈال دوں گا کیسی کیسی چنگاریاں بلکہ الائو تھے جو ہماری خاکستر سے پیدا ہوئے تھے۔ توبہ توبہ ایسا علمی متحرکہ کہ بندہ سوچتا ہی رہے۔ مجھے یہ حیرت کبھی اقبال کے حوالے سے پڑھ کر ہوئی تھی کہ اہل زبان نے ان پر اعتراض لگایا تھا کہ انہوں نے لفظ بچوں جو کہ پروزن ’’فعلن‘‘ ہے کو پروزن ’’فعو‘‘ باندھ دیا ہے۔ اقبال نے جواب میں دو درجن کے قریب اسناد اردو کے جلیل القدر اساتذہ سے پیش کر دیں اور کہا کہ اگر اب بھی معترضین کی تسلی نہ ہوئی ہو تو وہ پھر کوشش کریں گے انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت اقبال کی عمر صرف 26سال تھی۔ سچ مچ میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر وہ واقعہ بھی یاد آیا کہ جب اقبال احمد علی لاہوری کے گھر مولانا انور کاشمیری سے ملنے گئے تو مولانا احمد لاہوری نے تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ ہیں اقبال لاہوری مولانا انور کاشمیری محبت سے اقبال کی طرف متوجہ ہوئے اور اقبال کے سوالوں کے جواب عنایت کئے۔ اب جس شخصیت کے حوالے سے میں بات کرنے جا رہا ہوں وہ انہی مولانا انور کاشمیری کے استاد مکرم ہیں۔ یہ جو شجرہ تعلیم و تدریس ہے اس میں لکھا ہے افتخار ہند رئیس الحفاظ علامہ محمد عبدالجمیل طوروی پھر یہ سلسلہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک جاتا ہے۔ اصل میں ارمغاں ان کی خود نوشت ہے جو کہ غطوطے کی شکل میں ایک نسخہ نایاب تھا جسے اردو کے قالب میں ڈھال کر پروفیسر محمد طیب اللہ صاحب نے تشنگان علم کے سر پر احسان کیا ہے۔ مجھے تو پروفیسر محمد طیب اللہ کا انداز نگارش ہی بہت بھایا کہ انہوں نے اس میں شعروں کا استعمال بھی کمال کیا ہے اور تحریر کو جاذب نظر بنا دیا ہے علامہ محمد عبدالجمیل کے مطالعہ کے حوالے سے اگر میں لکھنے بیٹھوں تو کالم کم ہے۔ بس اسی بات پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا اور 22سال کی عمر میں سب علوم پڑھ کر فارغ ہو گئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ان کے اشعار کمال ہیں اور اس میں انہوں نے ایسی ایسی مشقتیں اٹھائیں کہ اب اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔حرف وضاحت میں ان کے لئے مصنف نے ساغر کا شعر لکھا ہے: اللہ ان کے نقش کف پا کی خیر ہو زروںکو دے گئے جو مہ و کہکشاں کی بھیک پروفیسر محمد طیب اللہ نے درست کہا ہے کہ آج ہمارا اپنے روشن اسلاف اور شاندار تاریخ سے رشتہ کٹ چکا ہے۔ غیروں کے نوالوں پر زندگی گزارنا ہماری ضرورت بن گئی ہے بے شک اس زوال نے ہمارے جسموں کو شادابی و رعنائی بخشی ہے مگر ہمارے فکر و تخیل کی سرزمینوں کو بانجھ کر دیا ہے۔ میرے پیارے اور معزز قارئین!سچ مچ اس کتاب یعنی ’’تذکرہ جمیل ‘‘ کی تحریر پڑھ کر اور اسلام کے کارہائے نمایاں پڑھ کر اپنی کم مائیگی کا کچھ زیادہ ہی احساس ہوتا ہے ایک جگہ میں اعلیٰ حضرت مولانا رضا خاں بریلوی کے بارے میں دیکھ رہا تھا کہ وقت کا ایک بڑا حساب دان ایک مسئلہ لے کر آیا جسے انہوں نے ایک پل میں حل کر دیا کیسے کیسے کمال لوگ تھے۔ اقبال نے کہا تھا: جب اس انگارہ خالی میں ہوتا ہے یقین پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا ایک اور شعر دیکھیے: دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو تیری نگاہ توڑ دے آئینہ مہرو ماہ میں کوشش کروں گا کہ اس خود نوشت سے کچھ مزیدار باتیں آپ کو پڑھا دوں۔علمی حوالے سے باتیں آپ خود اس کتاب کو خرید کر پڑھ لیں کہ تمام قاری اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سفر ہندوستان کا آغاز بذریعہ ریل گاڑی تھا۔ مولانا لکھتے ہیں یہ چار کوس کا فاصلہ ہم نے پیدل طے کیا اور کشتی میں بیٹھ کر دریائے کابل عبور کیا۔اس وقت دن کے دس بج چکے تھے بہرحال ہم اکوڑہ ریلوے سٹیشن جا پہنچے۔ لاہور کا ٹکٹ خریدا پشاور والی ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ایک موٹے سے کپڑے کی گٹھڑی تھی جس میں اس مسافر کا ضروری سامان تھا کل نقدی 25روپیہ ڈبل شاہی تھی۔یہ مغلیہ دور کا سکہ تھا جو انگریزی دور میں رائج تھا۔ دونوں طرف کلمہ لکھا ہوتا جو قدر ابھرا ہوا ہوتا اس واسطے یہ ڈبل شاہی سکہ مشہور تھا۔ یہاں پروفیسر صاحب یعنی مصنف نے بشیر احمد بشیر کا شعر ٹانکا ہے: اتار لو انہیں دل میں کہ پھر نہ دیکھو گے یہ صورتیں جو ہیں اب جلوہ بار ہم نفساں ایک اور نہایت دلچسپ واقعہ نظر نواز ہوا کہ کسی راجہ کے پاس ایک موسیقار کو سنا تو اسے دعوت دی اور اسے بٹھا کر سمجھایا کہ اس کے فن میں کہاں کہاں سقم موجود تھے وہ موسیقار یا فنکار بہت حیران ہوا۔ علامہ محمد عبدالجمیل بتاتے ہیں کہ فن کا علم تھا مگر اسے کبھی عملی صورت میں نہیں لائے مجھے ابوالکلام آزاد یاد آ گئے کہ انہوں نے کبھی باتوں میں طوائفوں کے حوالے سے گفتگو کر دی تو کسی منچلے نے کہا کہ مولانا آپ تو طوائفوں کے حوالے سے بہت کچھ جانتے ہیں مولانا ابوالکلام آزاد نے برجستہ کہا عالم تو میں اس کوچے کا بھی ہوں اگر بے عمل ہوں۔ کبھی خیال مولانا محمد علی جوہر جیسے نابغہ کی طرف جاتا ہے کہ ان کا انگریزی میں لکھا ہوا کالم پڑھ کر انگریز طالب علم انگریزی سیکھتے تھے۔ پھر تحریک پاکستان کی بنیاد بھی تو انہیں اسلاف کی خلافت تحریک سے جا ملتی ہے۔وہ چند اشعار بھی دیکھ لیں جو مجھے اس کتاب سے ملے: زمانے کی گردش سے چارہ نہیں زمانہ ہمارا تمہارا نہیں (عبرت گورکھ پوری) شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے (مومن) دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی (فراق) اشکوں سے ہیں نظیر کی آنکھیں بھری ہوئی پھرتا ہے کشتیوں میں سمندر لئے ہوئے (نظیر کھتولوی) آخر میں مجھے پروفیسر محمد طیب اللہ کو اس شاندار کارنامے پر مبارکباد کہنی ہے۔وہ خود نہایت اچھی نثر لکھتے ہیں اور سخن آشنا ہیں انہوں نے اپنے ممدوح کے لئے جلیل مانک پوری کا شعر لکھا ہے: نگاہ برق نہیں چہرا آفتاب نہیں وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں