خون جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے مگر اب تو نہ وہ رات ہے اور نہ وہ دن۔ کتابوں کی حالت بھی دگرگوں ہے کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ کتاب کے لمس سے خط اٹھائے اس سے باتیں کر سکے اور اس سے دوستی نبھا سکے۔ جہاں ہر میدان میں بے برکتی آئی ہے‘ کتاب نے بھی لوگوں سے اپنا آپ چھپا لیا ہے۔ منیر نیازی تو کہا کرتے تھے کہ کتاب برے آدمی سے اپنے معنی چھپا لیتی ہے۔ پہلے تو کتابی چہرے تک داد پاتے تھے۔ کتاب ہم سے دور ہو گئی اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے کتاب نہیں ہم کتاب سے دور ہوئے ۔ہم ڈیڑھ سو روپے کا برگر کھا لیتے ہیں مگر ایک سو روپے کی کتاب نہیں خریدتے۔ معدہ ہماری ترجیحات میں اولین حیثیت اختیار کر چکا ہے‘ شاید اس لئے کہ اب ہم سوچتے بھی معدے ہی کے زور پر ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب جو کہ بارہ جلدوں میں قرآن کی تفسیر ’’دروس القرآن‘‘ بھی تحریر فرما چکے ہیں‘ کی ایک کتاب’’خطبات ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ‘‘کی اشاعت کے سلسلہ میں میں نے دلچسپی لی کہ اسے نئے سرے سے طبع کیا جائے۔ ایک برس کے بعد اردو بازار سے رجوع کیا کہ اشاعت کے مراحل طے کئے جاسکیں۔ کاغذ کے ریٹس پوچھے تو یقین ہی نہ آیا کہ تبدیلی اتنی شدید بھی آ سکتی ہے۔ کافی دیر تک اپنے حواس ہی ٹھکانے پر نہ آئے۔ وہ 68گرام کاغذ جو چودہ یا پندرہ سو روپے فی رم تھا وہ 2650روپے ہو چکاہے۔ یہ پاکستانی کاغذ کی بات کر رہا ہوں۔ امپورٹڈ کا تو کہنا ہی کیا۔ جب سے ڈالر نے اڑان بھری تب سے یہ آف سیٹ امپورٹڈ عام آدمی کی رسائی ہی سے نکل گیا۔ تین ہزار روپے رم سے 4500روپے رم پر جا پہنچا۔ لوگ تو پہلے ہی کتاب سے دور ہو گئے تھے کہ ان کے مشاغل ہی سوشل میڈیا نے بدل دیے ہیں۔پہلے لوگ کتاب سے دور ہوئے اور اب کے کاغذ کی گرانی نے کتاب کو پہنچ سے دور کر دیا۔ یہ تو میں عام کتابوں کی بات کر رہا تھا کہ چند سرپھرے ادیب شاعر کچھ پیسے ویسے جمع کر کے کتاب چھاپ کر من پرچا لیتے تھے ‘اب وہ کیا کریں گے۔ اب صرف وہی شاعر اور ادیب صاحب کتاب یا صاحب دیوان بن سکیں گے جو گرانی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اچھے شعرا کی کتب آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ امیر اور صاحب حیثیت ایک تو مہنگی کتاب چھپواسکتا ہے اور پھر مفت بھی سب کو دے سکتا ہے۔ یوں اچھے ادیب کی ترسیل تقریباً ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔ پبلشرز نے تو نئی کتب چھاپنے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ اچھی اور مفید کتب بھی نہیں چھپ رہیں کہ لاگت بہت آ رہی ہے۔ مگر سب سے زیادہ خسارے کی بات یہ کہ ٹیکسٹ کی کتب اور ان پر لکھی گئی گائیڈ بکس بہت ہی مہنگی ہو گئی ہیں اور ایسی کتب سب کی ضرورت ہوتی ہیں: ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے سفینے ہمارے اچانک ہی زیر آب گئے پچھلے 25سال کے عرصے میں وہ مہنگائی کاغذ پر نہیں آئی جو اس سال یا چند ماہ میں آ گئی ہے۔معاملہ صرف کاغذ کا بھی نہیں ہے۔ اس کی پرنٹنگ اور بائینڈنگ بھی بڑھ گئی ہے۔ ظاہرہے‘ متعلقات کیسے بچ سکتے ہیں۔ پیسٹنگ تک بڑھ گئی ہے‘ اس کے بعد ٹائٹل ‘ ٹائٹل پرنٹنگ اور لیمینیشن ہے ۔مختصریہ کہ اگر کوئی کتاب پچاس ہزار میں تیار ہوئی تھی وہ اب 75ہزار روپے میں بنے گی۔ جب کتاب مہنگی ہو گی تو وہ بکے گی نہیں کہ قوت خرید کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس کی مثال آپ چلغوزے کو بنا سکتے ہیں کہ اب چلغوزے دیکھنے کو بھی نظر نہیں آتے کہ بچوں کو دکھائے جا سکیں۔ کتابوں کے ساتھ کاپیاں بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ ایک کلو کھلا کاغذ جو 100روپے کا آتا تھا 130کا ہو گیا ہے ۔کہنے کا مقصد یہ کہ تعلیم کا حصول دشوار سے دشوار ہوتا جا رہا ہے موجودہ حکومت نے تو بڑے شدو مد سے کہا تھا کہ تعلیم ان کی ترجیحات میں اولین مقام پر ہو گی۔ کچھ عرصہ پہلے تک آئے دن کتابیں شائع ہوتی تھیں۔ کچھ تو اشاعت کے حوالے سے بربادی ہوئی کہ پرویز مشرف کے دور میں زبیدہ جلال وغیرہ نے پیشہ ور پبلشرز سے کام لے کر چند من پسند لوگوں کے ہاتھ میں اشاعت دے دی۔ اس کے پیچھے این جی اوز تھیں کہ من پسند سلیبس تیار کیا جائے اور نظریہ پاکستان کے تاثر کو کم کیا جائے۔ زبیدہ جلال سے تو عمران خاں اب بھی جان نہیں چھڑا سکے ۔ خیر بات کسی اور طرف نکل گئی۔ معاملہ تو اب کچھ زیادہ ہی بگڑ گیا ہے۔ کتابوں کی گرانی والدین کیسے برداشت کریں گے وہ بچوں کو سکول ہی سے اٹھا لیں گے۔ وہ پہلے ہی بہت تنگ ہیں کہ پرائیویٹ پڑھائیں تو پیسے نہیں ہیں اور سرکاری سکول میں تعلیم نہیں ہے۔ شکر ہے ہم تو کتابوں کے دور میں رہے۔ ایک شعر یاد آ گیا: بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا مزے کی بات یہ کہ نئی کتابیں چھپنا دشوار ہو گئی ہیں اور پرانی کتب بیچنے والوں نے بھی پرانی کتب کے نرخ بڑھا دیے ہیں۔ حالانکہ پرانی کتب وہ پبلشرز سے کلو کے حساب سے خریدتے ہیں‘ ویسے بھی ہر وہ چیز جو چھپ جائے یا کتاب نظر آئے کتاب نہیں ہوتی۔ ایک مرتبہ تو ایک خاتون بازار سے ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کی کتاب مانگ رہی تھی کہ ریکس بڑے بن گئے تھے۔ بات یوں ہے کہ جب کتاب غائب ہو گی تو اس کی جگہ کوئی ہتھیار لے لے گا۔ نوجوان فارغ تو نہیں بیٹھیں گے۔ اس لئے ہی کہتے ہیں کہ فارغ ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس قدر ذہین اور فطین نوجوان تھے جنہیں زبردستی کتاب سے ہٹاکر ٹی ٹی تھما دیا گیا۔ بلکہ باقاعدہ نعرہ بنا کہ کتابیں بیچوں ٹی ٹی خریدو۔ پیسے کا حصول آسان ہو گیا‘ علم روٹھ گیا۔ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔کتاب تو علم ‘ بردباری‘ محبت اور ایثار سکھاتی ہے۔ یہ خوبیاں ناپید ہونا ہی تھیں کہ تشدد کا کلچر آ گیا کتاب ہمارے لیڈروں کے لئے تو شجر ممنوعہ ہے۔ میرا نہیں خیال بھٹو کے بعدکسی حکمران کو کتاب کے ساتھ اس قدر محبت رہی ہو۔ مجھے یاد ہے گورنر ہائوس کے ایک پروگرام میں شجاعت ہاشمی نے کہا کہ شاید ہی کوئی لیڈر کتاب پڑھتا ہو۔ کسی نے کہا قرآن مجید سب سے بڑی کتاب ہے۔ وہ تو خیر ام الکتاب ہے۔ بات جنرل بکس کی ہو رہی تھی۔ حکمران تو تاریخ تک نہیں پڑھتے‘ تبھی تو کچھ سیکھتے نہیں۔ ویسے تاریخ کی کتابیں تو یہی بتاتی ہیں کہ اس سے کبھی کوئی کچھ نہیں سیکھتا اور یہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ آخر میں دو شعر: کیا کہیںان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں رسم دنیا سے بھی آگاہ نہیں وہ کافر ورنہ بیمار سے احوال تو سب پوچھتے ہیں