کراچی،لاہور(سٹاف رپورٹرز) اردو زبان کے نامور شاعر، ماہر لسانیات، لغت نویس اور دانش ور نصیر ترابی حرکت قلب بند ہونے سے اتوار کو وفات پا گئے ، ان کی عمر 76برس تھی۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ اور دو صاحب زادوں راشد ترابی اور دانش ترابی کو سوگوار چھوڑا ہے ۔ نصیر ترابی شہرہ آفاق ذاکر اہل بیت عظام اور خطیب علامہ رشید ترابی کے فرزند تھے ، نصیر ترابی کی نماز جنازہ آج پیر بعد نماز ظہرین امام بارگاہ شہدائے کربلاخیرالامت روڈ، انچولی بلاک 20 فیڈرل بی ایریا گلبرگ ٹاؤن میں ادا کی جائے گی ، تدفین وادی حسین قبرستان سپر ہائی وے کراچی میں کی جائے گی۔نصیر ترابی 15 جون 1945ء کو ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ،تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے ۔ 1968ء میں جامعہ کراچی سے تعلقات عامہ میں ایم اے کیا جبکہ 1962ء میں شاعری کا آغاز کیا تھا ۔ان کا اولین مجموعۂ کلام عکس فریادی 2000ء میں شائع ہوا۔ ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور افسر تعلقات عامہ مقرر ہوئے ۔ عکسِ فریادی (غزلیات)شعریات (شعر و شاعری پر مباحث اور املا پر مشتمل)لاریب (نعت، منقبت، سلام)، اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ ملا۔نصیر ترابی کی سقوط ڈھاکہ کے موقع پرلکھی جانے والی مشہور غزل "ہم سفر" نے دنیا بھر میں شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور کئی عشرے گذرے کے باوجود یہ غزل آج بھی زبان زدِ عام ہے ۔ پاکستانی ڈرامہ سیریل ہم سفر کے ٹائٹل گیت وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی انہی کی ایک مقبول عام غزل ہے ۔ ان کی وفات سے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے علمی اور ادبی حلقوں میں فضا سوگوار ہو گئی ہے ۔ دریں اثناناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن خرم نواز گنڈاپورنے نصیر ترابی کے انتقال پر اپنے تعزیتی پیغام میں تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے ، مرحوم کی اردو ادب کیلئے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ،پیپلزپارٹی،تحریک انصاف،مجلس وحدت المسلمین ودیگر سیاسی وسماجی جماعتوں نے نصیرترابی کے انتقال پرگہرے دکھ اور افسوس کااظہارکیاہے ۔