یہ تصویر محمد رشید کے گھر کی ہے جو ایک معاصر انگریزی روزنامے میں اگلے روز شائع ہوئی۔ درودیوار پر اداسی کی جگہ غربت بال کھوے سو رہی ہے۔ غربت کے نشان صرف گھر کی دیواروں پر ہی نہیں، گھر کے کونے کونے میں غربت کا راج ہے۔ چولہے پر چڑھی ہانڈی میں بھی غربت ہے۔ محمد رشید کے میلے کرتے کی جیب میں بھی غربت پڑی ہے۔ تصویر میں گھر کا ایک کمرہ بھی تھوڑا سا دکھائی دیتا ہے۔ دروازہ نہیں ہے تو اندر جھاتی پڑتی ہے، وہاں بھی کرسی، میز اور پلنگ کی جگہ غربت سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گھر محمد رشید کا نہیں بلکہ دراصل حسرت و غربت کا ٹھکانہ ہے جہاں غریب رکشہ ڈرائیور محمد رشید آن بسا ہے۔ اسی لیے اس کے چہرے پر بھی خدوخال کی جگہ غربت کھنڈی ہوئی ہے۔ 43 برس کی عمر میں وہ ساٹھ برس کا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی خالی آنکھوں سے بس غربت جھانکتی ہے۔ اس تصویر میں ایک سائیکل بھی ہے جس کے ہر ہر پرزے پرغربت کا زنگ چڑھا ہوا ہے۔ عجیب پرانی اور کھٹارا سائیکل ہے مگر اس سائیکل پر سوار سات آٹھ سال کی بچی کے چہرے پر ایک خوشی اور مسکراہٹ ہے۔ ساری تصویر میں اس بچی کی مسکراہٹ وہ واحد چیز ہے جس سے گمان گزرتا ہے کہ محمد رشید کے اس غربت کدے میں بھی زندگی کا گزر ہوتا ہے۔ معصوم مسکراہٹ والی یہ بچی رکشہ ڈرائیور محمد رشید کی بیٹی نبیحہ ہے جس نے اپنے باپ سے سائیکل کی فرمائش کر رکھی تھی اور محمد رشید کے لیے اپنی بیٹی کی یہ معصوم خواہش پورا کرنا ایک خواب تھا جس کے لیے وہ بڑی تگ و دو سے پیسے جمع کرتا مگر پھر وہ جمع شدہ رقم کسی کی دوا کے کام آ جاتے یا ان پیسوں سے کسی وقت کی روٹی ہانڈی ہو جاتی۔ خدا خدا کر کے کئی مہینوں کے بعد اتنے پیسے جمع ہو سکے کہ کباڑیے سے ایک پرانی زنگ آلود سائیکل لے کر اپنی بیٹی کی فرمائش پوری کرسکے۔ خبر میں یہ تفصیل نہیں ہے کہ محمد رشید کی کتنی اولادیں ہیں اور کیا دوسرے بچے بھی اس سے کوئی فرمائش کرتے ہیں یا نہیں۔ کسی کھلونے کی، کسی نئے جوڑے کی، نئے بستے اور کتاب کی تو پھر یہ غریب ان سب کی فرمائشوں کو کس طرح پورا کرتا ہوگا، اس تصویر سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ 43 برس کی عمر میں وہ کیوں ساٹھ برس کا بوڑھا لگتا ہے۔ جب بچوں کی چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کے جواب میں باپ کے پاس دینے کو آنسو اور دکھانے کو خالی جیب ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ صبح سویرے کرائے کا رکشہ لے کر جب کراچی کی سڑکوں پر رزق کمانے نکلتا ہے تو اس کے اردگرد کروڑوں کی مالیت کی چمچماتی کاریں رواں دواں ہوتی ہیں۔ سڑک کے کنارے اربوں روپے مالیت کے کثیرالمنزلہ پلازے، شاپنگ سنٹر، ان وسیع و عریض شاپنگ مالز میں سجایا ہوا رنگ رنگ کا سامان گاہک جسے خریدنے کو بے تاب دکھائی دیتے ہیں لیکن اس سارے منظرنامے سے رکشہ ڈرائیور محمد رشید کا کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ اس نے اگر سال بھر کی جمع پونجی سے اپنی بیٹی کے لیے سائیکل بھی خریدنا ہے تو محلے کی کباڑیے کی دکان پر ہی جاتا ہے کیونکہ اس کی غربت اسے اتنی ہی عیاشی کی اجازت دیتی ہے۔ زندگی اس کے لیے بس ایک غربت کدہ ہے جہاں خواہشیں، حسرتوں کا روپ دھارتی ہیں اور تمنائیں ناکام اور تشنہ آرزو بن کر بس اندر ہی اندر ایک خلا پیدا کرتی ہیں۔ اسی غربت کدے میں شب و روز کرتے ہوئے ایک روز رکشہ ڈرائیور محمد رشید کو ایف آئی اے کی طرف سے ایک نوٹس ملتا ہے کہ اس کے نام پر بینک میں تین ارب روپے ہیں۔ یعنی اکٹھے تین ارب روپے جسے سن کر اس غریب کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اتنے پیسوں کا تو خواب بھی دیکھنے کی اس کی اوقات نہیں تھی۔ میلے کپڑے پہنے ہوئے، ٹوٹی چپل اور تہی کھیسہ رکشہ محمد رشید کے دل کی کھڑکن تیز ہوئی اور پھر اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ حالت کراچی کے قلفی فروش محمد قدیر کی بھی ہو جاتی ہے جب اسے خبر ملتی ہے کہ بینک میں اس کے اکائونٹ میں مبلغ ڈھائی ارب پاکستانی روپیہ پڑا ہے۔ وہ بے چارہ دہائی دیتا ہے کہ میں نے تو آج تک اندر سے بینک دیکھا تک نہیں ہاں مگر بینک کے باہر سے گزرنے کی جسارت ضرورکی ہے۔ اسی ڈر سے وہ کئی روز تک قلفیاں بیچنے نہ جا سکا یعنی اس کی روز کی دیہاڑی الگ ماری گئی۔ رکشہ ڈرائیور محمد رشید اور قلفی فروش محمد قدیر ایسی کئی اور بھی کہانیاں ہیں کہ غریب دیہاڑی داروں کے نام پر جعلی اکائونٹ میں اربوں روپے پڑا ہے۔ کراچی کی ایک خاتون کو اس وقت خبر ملتی ہے کہ وہ اربوں کی مالک ہے جب اسے کروڑوں کا ٹیکس ادا کرنے کا نوٹس ملتا ہے۔ غریبوں کی غربت کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوگا۔ جنہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں ایک دن خبر ملے کہ ان کے نام پر اربوں روپے بینک میں موجود ہیں اور یہ اربوں روپے کا کاروبار کوئی ان کے نام پر کررہا ہے۔ اس ملک میں ویسے بھی غریب ہی کے نام پر سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ وہ ایندھن ہے جسے ہر ایک نے اپنی مرضی کے تندور میں جھونکا۔ لیڈر کی تقریر بھی غریب سے شروع ہوتی ہے۔ دانشور کی دانشوری بھی غریب اور غربت کے گرد گھومتی ہے۔ غریب کی حالت سنوارنے کویہاں الیکشن ہوئے، منتخب حکومتیں بنیں۔ جمہوریت جمہوریت کا ناٹک بھی غریب عوام کے نام پر رچایا گیا۔ بوٹوں والے آئے تو بھی ملک کے غریبوں کی قسمت سنوارنے لیکن غریب بے چارا وہیں کا وہیں رہا۔ مہنگائی کا مارا، بھوک اور بیماری کا ستایا ہوا اور اب منی لانڈرنگ کا گھنائونا جرم بھی غریب کے نام پر کھیلا جارہا ہے۔ منی لانڈرنگ کو روکنے اور اس پر بند باندھنے کا تہیہ موجودہ حکومت نے کر رکھا ہے۔ دیکھئے بات کسی منطقی انجام تک پہنچتی ہے یا نہیں۔ میں حیران ہوں کہ ایک شریف پاکستانی بینک اکائونٹ کھلوانا چاہے تو اس کی اس قدر چھان بین کی جاتی ہے تو ان دیہاڑی دار غریبوں کے نام پر کس طرح جعلی اکائونٹ وجود میں آ جاتے ہیں۔ بینک کے اندر سے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں۔ یقینا اس شیطانی چکر میں جو بھی ملوث ہے اسے تو کڑی سزا ملنی چاہیے (خواب اور خواہش میں کیا حرج ہے) لیکن اس تکلیف کا مداوا کیسے ہوگا جو رکشہ ڈرائیور محمد رشید اور اس جیسے دوسرے دیہاڑی داروں کو کسی بے نام کھرب پتی منی لانڈرز کے اس جرم سے پہنچی۔ میرے نزدیک محمد رشید اور اس جیسے دوسرے غریبوں کی مفلسی کا مذاق اڑایا گیا۔ ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا۔ میڈیا میں ان کی غربت اور بے چارگی کی کہانیاں آئیں۔ کوئی اہل درد ہے جو اس تکلیف کو سمجھے۔ وہ زر کے بل پہ اڑاتے ہیں مفلسوں کا مذاق خدا بساط سے بڑھ کر نہ دے کمینوں کو جس کی جمع پونجی میں مبلغ تین سو روپے بھی موجود نہ ہوں اس کے نام پر بینک اکائونٹ میں تین ارب روپیہ نکل آئے تو وہ دولت کی اس غیر انسانی، غیر منصفانہ، بھیانک تقسیم کے بارے میں سوچتا تو ہوگا۔ اس کے ذہن میں سوال تو ضرور اٹھتے ہوں گے۔ انسانی نفسیات کے مطابق ہر عمل کا کوئی ردعمل ضرور ہوتا ہے۔ مفلسی اور غربت کے اس مذاق کاردعمل کیا ہوگا؟