کل برادرم میجر عامر سے بہت دنوں بعد تبادلہ خیال ہوا۔ وہ افغان جنگ ہی میں ایک لیجنڈری حیثیت ہی نہیں رکھتے‘ بلکہ حالات کی نبض کے ایسے شناسا بھی ہیں کہ شاذو نادر ہی کوئی دوسرا ہو گا۔ خیال آیا کہ اس وقت پاکستان جس بنیادی مسئلے سے دوچار ہے اسے ہم ملکی سیاست کے جھمیلوں میں الجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ ہے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا جو خطے کی صورت حال بدل سکتا ہے۔ میجر عامر نے چھوٹتے ہی اس پر بڑا بلیغ تبصرہ کیا جو مرے لئے سوچ کے راستوں کا تعین کر گیا۔ کہنے لگے:یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا۔ جی!کیا مطلب ،ابھی عرض کئے دیتے ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کیا پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ اور مقتدرہ میں کوئی شخص ایسا بھی ہو جو موقع کی نزاکت کو اس کی گہرائی میں جا کر سمجھ رہا ہو۔بس نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ ہم قطعاً کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کریں گے۔ افغانستان میں جو حکومت آئے گی اسے تسلیم کریں گے۔ کسی طور اپنی زمیں دوسروں کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور چاہیں گے کہ دوسروں کو زمین بھی ہمارے خلاف استعمال نہ ہو۔خوبصورت بیانیہ ہے مگر اس سے وہ حکمت بھی واضح نہیں ہوتی جو ہم اختیار کرنے جا رہے ہیں۔ آئیے تجزیہ کریں کہ اصل صورتحال کیا ہے۔ جب یہ حکومت آئی تھی تو صاف نظر آرہا تھا کہ سی پیک کو لپیٹنے کے لئے آ رہی ہے اور ہمیں دوبارہ کلی طور پر مغرب کی جھولی میں ڈالا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا کاسہ لیس بنایا جا رہا ہے۔ نواز شریف کا وزیر خزانہ شرح سود بڑھا رہا تھا نہ ڈالر کی قیمت ۔ اس نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا یہ کام اس لئے کئے گئے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے۔میری پالیسی جاری رہتی تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔ موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک بہت بڑا سچ بولا کہ ڈالر کی قیمت اور شرح سود بڑھانے سے ملک کی معیشت کا ستیا ناس کر دیا گیا۔ اس زمانے میں ہر وزیر مشیر‘وزارت خارجہ کا ہر بزرجمہر سی پیک کے خلاف بولنا اپنا فرض منصبی سمجھتا تھا۔ ایک وزیر نے تو صاف کہا کہ اسے ایک سال کے لئے موخر کر دینا چاہیے۔مگر کیوں؟اس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ بس ہم امریکہ کی طرف جا رہے تھے‘ آئی ایم ایف کی طرف رواں دواں تھے۔ ہم نے اپنا مستقبل ادھر وابستہ کر لیا تھا۔ چینی حکومت ہی نہیں پاکستان میں چینی سفیر ایک ایک کو سمجھاتا رہا کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو۔ مگر ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے۔بالآخر ٹرمپ جیسے چالباز نے پتہ پھینکا اور ہمارے وزیر اعظم کو شیشے میں اتار لیا۔ ایک ہی ملاقات میں وہ سمجھنے لگے کہ ٹرمپ مرا دوست ہے‘ ذاتی دوست ہے‘ کشمیر کا مسئلہ حل کرائے گا۔ دنیا ٹرمپ کو کوس رہی تھی ہم اس کے گن گا رہے تھے۔ ہم نے مودی سے بھی توقعات باندھی تھیں۔ہم اپنا ہائوس ان آرڈرکرنے کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ کو ہماری ضرورت تھی۔ہم ایک بار پھر اس کے کام آئے۔ اچھا کیا‘عالمی امن کے لئے ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ چین بھی ایسا کر رہا تھا۔ مگر ہم سے تو ایک بار پھر قیمت وصول کی جا رہی تھی۔ ہماری سچائی کوپرکھنے کے لئے ہمیں چین سے دور ہونے کا کہا جا رہا تھا یا ہم خود ہی بات سمجھ کر ایسا کر رہے تھے۔ ہم نے ملک کی معیشت کا ستیاناس کر دیا۔ سب کچھ امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ امریکہ میں حکومت بدلی تو افغانستان سے انخلا میں ذرا تعطل پیدا ہوا۔ نئے صدر امریکہ جوبائیڈن ہم سے کٹے کٹے سے رہنے لگے۔ انہوں نے آج تک ہمارے وزیر اعظم سے فون پر بات تک نہیں کی۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ خیر ایک تو یہ بات ہے کہ کہا جاتا ہے جوبائیڈن اور ہلیری کلنٹن ان لوگوں میں سے ہیں جو ایسے خارجہ امور سے واقفیت کی وجہ سے پاکستان کو’’اچھی طرح جانتے‘‘ ہیں ۔پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ ہلیری کے ہم مداح ہیں مگر اس سے پاکستان کو نیکی کی امید نہیں رکھنا چاہیے۔لگتا ہے جوبائیڈن کا بھی یہ معاملہ ہے اس وقت امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔ یہ تو مجھے پتا نہیں مگر اتنا معلوم ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ جمہوریت کو قبول کر لیں۔ طالبان اس کے لئے تیار نہیں کہ وہ آئین تسلیم کر لیں جو باہر سے ان پر مسلط کیا گیا۔یہ آئین مسلط کرنے والے اب شکست کھا کر جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس خطے میں ان کا بنایا ہوا نظام اور آئین راج کرے۔طالبان کہتے ہیں‘ہماری حکومت واپس کرو ہم امارات اسلامیہ قائم کریں گے۔مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ ہم یہی تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔دوسری طرف چین طالبان سے بات کر رہا ہے اور ایران نے بھی طالبان کے بارے میں اپنا رویہ بدلا ہے۔ خاص طور پر ان کا یہ تبصرہ بڑا بلیغ ہے کہ شمالی اتحاد والے بھی اب طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔افغان فوج کے ایک ہزار جوانوں نے سرحد پار کی اور تاجکستان میں جاکر پناہ لی۔کسی کو اس پر اعتراض نہیں‘یہ نظریات کا مسئلہ نہیں وگرنہ چین اور ایران اس طرح رابطے نہ کرتے۔یہاں نظریات کام بھی نہ آئے وگرنہ ہمارے چین سے تعلقات نہ ہوتے اور تعلقات بھی ایسے جسے چین طرح بیان کرتا ہے کہ ایسے تعلقات جیسے امریکہ کے اسرائیل سے ہیں۔ سنا ہے طالبان بھی چین میں کسی قسم کی مداخلت سے احتراز کا وعدہ کر چکے ہیں خاص کر سنکیانگ کے مسلم علاقے میں۔ہم ہیں کہ تجزیے کرتے پھر رہے ہیں کہ خانہ جنگی ہو گی‘ طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ سچ پوچھئے اس بیس سال کے عرصے میں طالبان بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔امور خارجہ کی نزاکتیں بھی۔اس عرصے میں دنیا بھی بدل چکی ہے۔ طالبان کو اس کا ادراک ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ تھر تھر کانپ رہے ہیں کہ اگر طالبان کابل پر قابض ہو گئے تو کہیں اسلامی نظام کا پرچم لہرائے ہماری طرف کا رخ نہ کریں۔طرح طرح کے وسوسے ہیں۔ ہم اندر ہی اندر دعائیں مانگ رہے ہیں کہ طالبان کم از کم کابل پر نہ آسکیں۔ یہی امریکہ چاہتا ہے تاکہ وہ ڈمی حکومت چلتی رہے جو وہ بنا کر گئے تھے۔ میجر عامر پوچھتے ہیں کہ کیا آج تک یہ ہوا ہے کہ امریکہ کی بنائی ہوئی پٹھو حکومت کبھی باقی رہی ہے۔ یہ بات ہمیں کیوں سمجھ نہیں آتی۔ اب آپ سمجھیں کہ یہ نادان گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا۔ اس وقت طالبان سب سے بات کر رہے ہیں مگر اشرف غنی سے بات کرنے کو تیار نہیں۔صرف امریکہ کے پٹھو باقی نہیں رہتے‘ کسی کے پٹھو بھی باقی نہیں رہتے۔روس کے بھی نہیں رہتے۔ اشرف غنی کی حیثیت اتنی بھی نہ رہے گی جتنی فارموساکے جزیرے میں دبکے بیٹھے چیانگ کائی شیک کی تھی۔تاریخ آگے بڑھ رہی ہے۔ ہم ابھی اپنا پرانا گھر درست کر رہے ہیں۔اب مشرف قصہ پارینہ ہو چکا۔ اس کو اور اس کی پالیسیوں کو بھول جائو اور آگے بڑھو۔جو سورج طلوع ہو رہا ہے‘ اسے تسلیم کرو ماضی میں نہ الجھے رہو۔