ایک مولوی صاحب ہر خطے میں ارشاد فرماتے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں چاہیے۔محنت کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔خود مانگنے ہر ایک کے گھر پہنچ جاتے تھے بلکہ کبھی تو اصحاب ثروت کو بلا کر مانگتے۔کسی نے پوچھا‘مولوی صاحب یہ کیا فرمایا‘یہ تو ’’فتوحات‘ ہیں۔اصحاب مدرسہ و خانقاہ مانگے تانگے اور چندے کی رقومات کو’’فتوحات‘‘ قرار دیا کرتے ہیں اور انہیں اپنی’’عظمت‘‘ کی دلیل مانتے ہیں۔ عمران حکومت تین سال سے قرضے پہ قرضہ لئے جا رہی ہے اور خیر سے اب پاکستان پر قرضوں کی مالیت پچاس ہزار ارب سے بھی زیادہ ہو چکی ہے لیکن آئی ایم ایف کی طرف سے حالیہ ایک ارب ڈالر کا قرضہ ملا تو وزراء نے جس فاتحانہ انداز میں یہ خوشخبری ایک پریس کانفرنس میں سنائی۔ اس سے مولوی صاحبان کی ’’فتوحات‘‘ یاد آ گئیں۔ قارئین یہاں ایک بہت بڑے جوھری فرق کو نظرانداز مت کیجیے۔مولوی صاحبان کی فتوحات ناقابل واپسی ہوتی ہیں‘انہیں ’’اللہ واسطے‘‘ کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے۔عمران حکومت جو فتوحات کر رہی ہیں‘ وہ سود سمیت واپس کرنا ہوں گی۔کب؟۔جو حالات بن گئے ہیں‘لگتا نہیں کہ پاکستان اب قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں کبھی آ سکے گا۔ ٭٭٭٭٭ فاتحانہ پریس کانفرنس البتہ کوئی نیا ’’وقوعہ‘‘ نہیں۔عمران خاں نے آتے ہی قرضہ لیا تھا اور آتے ہی میڈیا کے سامنے فرمایا تھا کہ قوم کو خوشخبری دیتا ہوں‘ سعودی عرب سے اتنے ارب ڈالر کا ’’پیکیج‘‘ ہو گیا ہے۔انہوں نے قرضے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔لگا سعودیہ نے اسی طرح یہ رقم تحفے میں دی ہے جیسے نواز دور میں دی تھی۔لیکن فوراً ہی پتہ چلا کہ اس بار تحفہ نہیں‘قرضہ دیا ہے اور شرح سود بھی زیادہ ہے۔خاں صاحب نے ’’فتوحات‘‘ کا نام پیکیج رکھ دیا۔ ٭٭٭٭٭ ان فتوحات کے عوض عوام کو پامال کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں‘بجلی‘ گیس‘ تیل کے دام ہی نہیں‘دال کے بھائو بھی بڑھائے جاتے رہیں گے۔پچھلے ہفتے دال مسور 50 روپے کلو اور چنا 40 روپے کلو مہنگا ہو گیا۔نواز دور میں ڈیڑھ سو روپے کلو والی دال اب خیر سے ساڑھے تین سو روپے کلو میں مل رہی ہے۔آپ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ عوام اتنے خوشحال ہو گئے کہ ساڑھے تین سو کی دال بھی خوشی خوشی خرید لیتے یا خرید سکتے ہیں۔ ’’خوشی خوشی‘‘ کے معنے البتہ آپ کسی بھی گاہک سے پوچھ سکتے ہیں‘ڈکٹشنری کو زحمت دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ٭٭٭٭٭ کسان بھائی پریشان ہیں کہ ڈی اے پی کھاد کی بوری 98سو روپے میں مل رہی ہے یعنی دو سو روپے کم دس ہزار میں۔یہ سطریں چھپنے چھپتے دو سو کا حساب بھی چکتا ہو جائے گا اور قیمت کی فکر رائونڈ ہو کر دس ہزار ہو جائے گی۔ چھ ماہ پہلے بوری کی قیمت 56سو تھی اور تین سال پہلے جب چور ڈاکو حکمران تھے‘یہ بوری 25سو کی ملا کرتی تھی۔خبر میں ہے کہ کسان بہت پریشان ہیں۔چھ روپے والی بجلی 8 روپے یونٹ مل رہی ہے۔اوپر سے دوسرے اخراجات کا اضافہ او اب یہ کھاد بھی حدیں ٹاپ گئی۔ کسان بھائیوں سے عرض ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔وزیر اعظم کو کبھی گھبراتے دیکھا؟حالانکہ چند لاکھ روپے کی تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا۔پھر بھی ہمیشہ خوش اور مطمئن بلکہ خوش ترین اور مطمئن ترین نظر آتے ہیں۔کسان بھائی بھی خوش نظر آئیں‘خوش ترین نہ سہی‘خوش تر ہی سہی اور دیکھیں کہ کپتان نے کس خوش اسلوبی سے پاکستان کو اوپر پہنچا دیا ہے۔ حالات بہت اچھے ہیں۔اچھے نہ ہوتے تو ’’وہاں‘‘ سے یہ خطاب ضرور کیا جاتا کہ حالات بہت برے نہیں تو بہت اچھے بھی نہیں۔تادم یہ خطاب ہوا ہے نہ ایسی کوئی ٹویٹ آئی ہے جو مان لینا چاہیے کہ حالات بہت اچھے ہی ہیں۔ بہرحال مہنگائی تو ہے اور اس کی تین وجوہات‘محب وطن معیشت دانوں نے دریافت کی ہیں۔ایک وجہ ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹس ہیں، جو نواز شریف نے 1990ء کے آگے پیچھے خریدے تھے۔بعض کم فہم لوگ مہنگائی کی اس وجہ سے چڑ جاتے ہیں‘کہتے ہیں32سال پہلے خریدے گئے اپارٹمنٹس سے اتنی مہنگائی کیسے ہو سکتی ہے۔عرض ہے کہ اسے دور رس اثرات کہا جاتا ہے اور دور رس اثرات کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے جد امجد نے ہزار ہا سال پہلے سہواً ایک خطا کی تھی‘اس خطا کے دور رس اثرات ہزاروں برس بعد بھی برآمد ہوئے جا رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ بہت سی نہ سہی‘ایک تہائی مہنگائی کی وجہ یہی اپارٹمنٹس ہیں۔عمران خاں بارہا کہہ چکے ہیں کہ سابق دور کی کرپشن کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ ایک تہائی مہنگائی عالمی منڈی سے آئی۔باربر حضرات نے بال کاٹنے کے نرخ میں لگ بھگ سو فیصد اضافہ کر دیا ہے۔پوچھا گیا تو پتہ چلا عالمی منڈی میں کٹنگ مہنگی ہو گئی ہے۔بھارت میں بلیڈ کی قیمت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔پاکستان خوش قسمت ہے اور ان کی خوش قسمتی کی تشریح جاننا مقصود ہو تو سمندر پار پاکستانی سے پوچھیے۔کل ہی پتہ چلا کہ ریوڑیاں اور املوک بھی دوگنے دام پر مل رہی ہیں۔عالمی منڈی میں یہ بھی مہنگی ہوگئی۔ آخری ایک تہائی مہنگائی ’’مافیا‘‘ نے پیدا کر رکھی ہے۔دفتر میں ایک کولیگ کو پچاس روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ سامنے ریڑھی سے دو بھٹے لے آئو(بھٹہ یعنی جسے سٹّہ اور چھلّی بھی کہتے ہیں) ایک مجھے دو‘ایک خود کھائو اور دس روپے باقی لا کر دو۔ وہ دو بھٹے لے آیا۔دس روپے واپس مانگے تو کہا‘دس کا نوٹ آپ مجھے دیں‘بھٹہ 20سے 30روپے کا ہو گیا ہے۔ کہا’اپنی لوٹ؟ابھی پچھلے مہینے ہی تو 20کا لیا تھا۔بولا‘کیا کریں‘مافیا عمران حکومت کو ناکام بنانے پر تلا ہے۔پوچھا کیا مافیا۔بولا‘وہی سسلین مافیا۔