میں نے کار پارکنگ میں لگائی اور اہلیہ کے ساتھ نکل کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ہم چھتری تو ساتھ لائے نہیں تھے لہذا اپنی جیکٹ کی ٹوپی پہن کر دور کھڑے ایک ادھیڑ عمر شخص کی طرف چلنا شروع کردیا جو کھلے آسمان کے نیچے چھتری لئے کھڑا تھا اور ہم سے پہلے پہنچنے والے ایک جوڑے کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ ہمارے سب سے چھوٹے بیٹے نے ستمبر میں سیکنڈری سکول منتقل ہوناہے۔ اقطاب ہمارے 3 بیٹیوں میں تیسرے نمبر ہے وہ ابھی تقریبا دو سال کا تھا کہ ایک روٹین کی اپائٹمنٹ کے دوران ڈاکٹر کو کچھ شک گزرا تو اس نے کہا وہ اقطاب کو مزید جائزے کے لئے ماہر اطفال کو ریفر کر رہی ہے۔ یہ 2011 ء کی بات ہے اس نے کہا کہ شاید اقطاب کو آٹزم ہے۔ ہم نے تو یہ لفظ پہلے کبھی سنا ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر کی بات کو میں نے کوئی اہمیت نہ دی۔ تقریبا 6 ماہ بعد جب دوبارہ فیملی کے پاس چند دنوں کے لئے آیا تو اہلیہ نے تفصیلات سے آگاہ کیا کہ اقطاب کی گزشتہ 6 ماہ سے مسلسل اسسمنٹس ہو رہی ہیں۔ اور ماہر اطفال کو یقین کے کہ اقطاب آٹسٹک ہے۔ اب بہت سے حکومتی اداروں کے نمائندے ملکر ایک رپورٹ تیار کریں گے جس میں اقطاب کی شخصی و تعلیمی ضروریات کا تعین ہوگا اور وہ پہلے ایک خصوصی نرسری اور پھر سکول جائے گا۔ سپرنگ ول نامی پرائمری سکول میں 6 سال گزارنے کے بعد اب اقطاب نے سیکنڈری سکول جانا تھا جس کے لئے ماہرین تعلیم اطفال اور خصوصی بچوں کے بورڈ نے گریٹ اوک سکول تجویز کیا تھا۔ اسی سلسلے میں آج ہماری اپائٹمنٹ تھی جس کے لئے ہم سکول پہنچے تھے۔ سکول کے باہر کھڑے اس شخص کے بارے میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کوئی ٹیچر تو نہیں لگتا کیونکہ ایسے سکولوں میں ٹیچر عمومًاخواتین اور نسبتا جوان لوگ ہونگے۔ مجھے خیال گزرا کہ کوئی ایڈمن اسسٹنٹ یا سیکورٹی گارڈ ٹائپ بندہ ہوگا جو اپنے ہاتھ میں پکڑی لسٹ میں آنے والے والدین کے نام کی تصدیق کر رہا تھا اور پھر ان کو سکول کے صدردروازے تک ساتھ چل کر وہاں کھڑی ٹیچر کے حوالے کر کے اگلے والدین کی رہنمائی میں لگ جاتا۔ کورونا وبا سے متعلقہ اہتمام کی وجہ سے ہر بچے کے والدین کو الگ وقت دیا گیا تھا۔ اس لئے اس کے سامنے کوئی لائن نہیں لگی تھی اور ایک بچے کے والدین کی آمد کے بعد وہ وہاں کھڑا چھتری تھامے اگلے والدین کا انتظار کررہا تھا۔ ہم اس کے قریب پہنچے اس نے انتہائی خوش اخلاقی سے ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنا تعارف کروایا۔ جب اس نے اپنے تعارف کراویا تو مارے حیرت کی میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا یہ تو کورونا کہ وجہ سے منہ میں لگے نقاب کی برکت تھی کہ شاید اس کو احساس نہیں ہوا۔ میری حیرت کہ وجہ یہ تھی کہ کھلے آسمان تلے سکول کے صدر دروازے سے 30 قدم کے فاصلے پر سکول جاتی سڑک کے کنارے دھیمی دھیمی لیکن مسلسل بارش میں چھتری لئے کھڑا شخص کوئی اور نہیں اس سکول کا ہیڈ ٹیچر جسے ہمارے ہاں اب پرنسپل کہا جاتا ہے۔ویسے اس پر میرا حیران ہونا بنتا نہیں تھا کیونکہ اس طرح کے مناظر آپ کو برطانیہ میں ہر دفتر، ہر ادارے میں ملیں گے۔ وی آئی پی اگرچہ انگریزی زبان کا لفظ ہے لیکن اس وی آئی پی کلچر کا نام و نشان آپ کو کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں نہیں ملے گا۔ میرے ماموں محمد نیاز عباسی آکسفورڈ کے دو مرتبہ لارڈ میئر رہے۔ ایک دفعہ ان سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر گیا تو انہوں نے چائے سے میری تواضع کی۔ بطور لارڈ میئر ان کو صرف یہ استحقاق حاصل تھا کہ تھرماس میں گرم پانی ، چائے کی پتی اور دودھ کے ساتھ ٹرالی ایک ویٹر ان کے دفتر کے ایک کونے تک پہنچا گیا۔ چائے انہوں نے خود ہی بنا کر مہمانوں کی پیش کرنا ہوتی۔ پاکستان کے بہت سے مسائل میں سے ایک بڑا وی آئی پی کلچر اور عہدے کا غرور ہے۔سرکاری افسران اصل میں عوام کے ملازم ہوتے ہیں۔ حکمران عوام کے خادم ہوتے ہیں کیونکہ ان کی تنخواہیں عوام پر لگائے گئے ٹیکس کی آمدن سے ادا ہوتی ہے۔ وی آئی پی کلچر تو فی نفسہ غلط ہے لیکن یہ اس وقت اور بھی قابل نفرت بن جاتا ہے جب اس پر سرکاری خزانے سے اخراجات ہو رہے ہوں۔ سرکاری و غیر سرکاری اداروں تعلیمی اداروں ،سیاسی جماعتوں یہاں تک کہ مذہبی تنظیمات کے ہاں بھی آپ کو اسی طرح کا پروٹوکول ہر طرف نظر آئے گا۔ اور تو اور پیرخانون اور روحانی تربیت کے دعویداروں جن کے وعظ و تلقین آپ کو اسلاف کی سادگی ، عجز و انکساری کا تذکروں سے مزین نظر آئیں گے کی زندگی، بودوباش اور طرز عمل میں سکیورٹی کے نام پر بے جا پروٹوکول کی بہتات نظر آئے گی۔وزیر اعظم عمران خان اپنی سوچ میں وہی آئی پی کلچر کے خلاف ہیں۔ وہ گاہے بگاہے اس کے خلاف بات بھی کرتے ہیں اور اس کے خاتمے کے لئے اعلانات بھی کرتے ہیں لیکن بیورو کریسی اور ان کے ارد گرد موجود روایتی سیاستدان اس کلچر کے خاتمے میں مخلص نظر نہیں آتے اسی لئے 3 سال گزرنے کے باوجود پاکستان سے وہی آئی پی کلچر کے خاتمے کی طرف کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔سرکاری وسائل پر وی آئی پی پروٹوکول کا پاکستان جیسا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی اکثریت اس کو قابل قبول نہ سمجھیں۔ عوام میں جب تک یہ شعور پیدا نہیں ہوتا تب تک معاشرے سے وی آئی پی کلچر کا حقیقی خاتمہ ممکن نہیں۔ شعور کی ابتدا تعلیم سے ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اگر شروع سے طلبا کی تربیت صحیح نہج پر ہو اور وہ وی آئی پی کلچر کو قابل نفرت سمجھنا شروع کردے تو شاید پاکستان میں سے بھی وی آئی پی کلچر کی خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے لیکن اس قومی مقصد کے حصول کا انحصار اس سوال کے جواب پر ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی اداروں کے سربراہان گریٹ اوک سکول کے ہیڈ ٹیچر کی طرح دفتر سے اٹھ کر سکول کے صدر دروازے پر سکول کے وزٹ پر آنے والے والدین کو خوش آمدید کہہ سکتے ہیں؟