شبیر سومرو

 

پائے مرا لنگ ’’است‘‘،

ملکِ خدا تنگ نیست!

’’کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ میں کسی دوسرے ملک میں ہوتی ہوں،میں نے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے ٹرین یا بس میں سیٹ بک کرائی ہوتی ہے مگر جب میں اسٹیشن یا بس ٹرمینل پہنچتی ہوں تو مجھے دیکھ کر ڈرائیور لے جانے سے معذرت کرلیتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ میںلنگڑی ہوں اور چل پھر نہیں سکتی۔اس بس یا ٹرین میں یہ خصوصی انتظام نہیں ہوتا کہ مجھے وھیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے سوار کرایا جاسکے۔اس وقت مجھے اپنی معذوری پر بہت رونا اور غصّہ آتا ہے مگر یہ کیفیت وقتی ہوتی ہے۔ لوگوں کا اس طرح کا روّیہ مجھے مایوس نہیں کرتا۔ میں ہر ایسے واقعے کے بعد نئی ہمّت، نئے حوصلے اور نئے جوش کے ساتھ دنیا دیکھنے اور اپنے پڑھنے والوں کو دکھانے کا سلسلہ شروع کردیتی ہوںــ‘‘۔

چلنے پھرنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے معذور اسٹیسی کرسٹی (Stacey Christie)دنیا کی ان سیکڑوں عورتوں اور مردوں میں شامل ہیں،جنھوں نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بنایابلکہ وہ ہم جیسے لوگوں سے زیادہ سرگرم، متحرک، زندہ دل اور پرجوش ہیں۔اس کے باوجود کہ وہ چل پھر نہیں سکتیں ،انھوں نے درجنوں ملکوں کے سیکڑوں شہروں اور قصبوں کی سیاحت کی ہے اور اس سلسلے کو وہ تاعمر جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ آج کل وہ اٹلی کے شہر وینس میں ہیں، جسے وہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پسند کرتی ہیں۔ ویسے تو پانی کی گلیوں والا شہر وینس سبھی کو پسند ہے مگر اسٹیسی کے پاس اس سے محبت کرنے اور بار بار یہاں آنے کی ایک ٹھوس وجہ بھی ہے۔ وینس میں عام ٹریفک یعنی گاڑیاں نہیں چلتیں کیوں کہ اس کی سڑکیں دراصل پانی کی نہریں ہیں اور ان میںگنڈولے یعنی کشتیاں چلتی ہیں۔۔۔اور وینس کے ہر گنڈولے میں اسٹیسی جیسے معذور سیاحوں کو سوار کرانے کے لیے خصوصی ریمپس(Ramps)ہوتے ہیں۔معذور مسافروں کے لیے یہ سہولت اب دنیا بھر کی بسوں، ٹرینوں میںدی جانے لگی ہے مگر کچھ ملک اور شہر،ہماری طرح ابھی اس انتظام سے دور ہیں۔ہم اس فیچر کے ذریعے اسٹیسی جیسی کچھ معذور مگر باہمت سیاح خواتین کی زندگی پر نظر ڈال رہے ہیں جو وھیل چیئر پر دنیا گھومتی پھرتی ہیں اور اپنے مشاہدات اور تجربات بھی اپنے بلاگس اور وی لاگس کے ذریعے دنیا کے ساتھ شیئر کرتی رہتی ہیں۔ان میں ایلیزیا کیزریان(ALYSIA KEZERIAN) ،وِلیسا تھامپسن،ممبئی کی پرویندر چائولہ اور کئی درجن دوسری سیاح شامل ہیں جو اپنی وھیل چیئر پر بیٹھ کر دنیا دیکھتی پھرتی ہیں۔

سب سے پہلے اسٹیسی کرسٹی کی بات اور احوال جو اُن سب سیاح خواتین سے زیادہ گھومتی ہیں اور اپنے قارئین کو ہر وقت اپنے سفر کے تجربات سے آگاہ رکھتی ہیں۔ اسٹیسی سے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں ان کی پسند اور ناپسند سے متعلق پوچھا گیا توانھوں نے بتایا:

’’مجھے دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز ناپسند ہے، وہ سیڑھیاںہیںاور میری پسندیدہ چیز ہے ریمپ یا وہ تختہ جو بسوں، ٹرینوںاور دیگر سفری ذرائع میں سوار ہونے کے لیے مجھ جیسوں کا مددگار ہوتا ہے۔لاس اینجلز میںمیری اپاٹمنٹ بلڈنگ کا گرائونڈ لیول عام زمین سے تین قدم اونچا ہے۔ اس لیے مجھے ہربار گھر سے نکل کر کہیں جاتے ہوئے اور گھر واپس آنے پر ان قدمچوں پر پہلے ریمپ رکھوانا پڑتا تھا، اس کے بعد ہی میری وھیل چیئر گذر سکتی تھی۔ اس مسئلے کو مستقل حل کرنے کے لیے مجھے اپنے خرچے پر سیمنٹ سے پختہ ریمپ بنوانا پڑا ہے۔ اس سے میرے جیسے دیگر معذوروں کو بھی آسانی ہوگئی ہے۔ میں جب ٹرین سے سفر کرنے کے لیے کسی اسٹیشن پر آتی ہوں تو وہاں کھڑے ہونے کے لیے وھیل چیئر کا نشان تلاش کرتی ہوں تا کہ ٹرین ڈرائیور مجھے پلیٹ فارم پر اس خاص مقام پر انتظار کرتے ہوئے دیکھ لے اور مجھے سوار کرانے کے لیے ٹرین کی بوگی کے دروازے اور پلیٹ فارم کے درمیان مخصوص تختہ رکھ کر مجھے چڑھنے میں مدد دے۔ مگر سیاحت کے دوران کچھ ملک یا شہر ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں یہ سہولت نہیں ہوتی۔ اور اگر ہے بھی تو ٹرین یا پبلک ٹرانسپورٹ کا عملہ یہ زحمت کرنے سے کتراتا ہے۔ اس طرح کا تلخ تجربہ مجھے آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ افریقی اور ایشیائی ملکوں میں زیادہ ہوتا ہے۔یہاں تک کہ میلبورن جیسے جدید شہر کے اسٹیشنوں اور بسوںمیں بھی یہ رواج نہیں ہے۔ میں جب پہلی بار وہاں گئی تھی تو بہت مشکل ہوئی تھی۔ میں نے وہاں کی لوکل انتظامیہ کو خط لکھا کہ معذوروں کے لیے یہ انتظام لازماً کرے مگر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پھر جب میں نے اپنے بلاگ پر یہ بات لکھی کہ میلبورن شہر میںمجھے کتنی تکلیف ہوئی تو وہاں  جو لوگ میرے بلاگ پڑھتے ہیں، انھوں نے اپنی طرف سے درجنوں ریمپ خرید کر اسٹیشنوں پر جا کے رکھوائے تو اس سے ریلوے کے محکمے کو بھی خیال آیا اور پھر ہر ٹرین میں ایک ایسا تختہ رکھوا دیا گیا۔ یہ میری چھوٹی سی جدوجہد کی کامیابی ہے، جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔اب میں کوشش کر رہی ہوں کہ بڑے شہروں میں جو ٹرام چلتی ہیں، ان میں بھی ریمپ کی سہولت دی جائے۔ ٹرامز چونکہ ایک مخصوص پٹے پر چلتی ہیں، اس لیے ان کے اسٹاپس پر یہ بندوبست نہیں ہوسکتا۔اس کے علاوہ یہ اتنی اونچی ہیں کہ عام ریمپ سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کو کوئی خاص اختراع کرنی پڑے گی‘‘۔

اسٹیسی کسی بھی ملک یا شہر کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے خاص ریسرچ ورک کرتی ہیں۔ وہ انٹرنیٹ اور گوگل میپس کے ذریعے اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ جس جگہ جا رہی ہیں، وہاں عمارتوں ، سڑکوں، اسٹیشنوں، بس ٹرمینلز ، ٹرینوں اور بسوں میں ان کے لیے آسانی مہیا کی گئی ہے یا نہیں؟

’’مجھے مطلوبہ شہر کے عوامی اور تفریحی مقامات سے متعلق پیشگی ریسرچ کرنا ہوتی ہے تاکہ وہاں پہنچنے کے بعد کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہ کرناپڑے۔میں جس کوئین اسٹریٹ پر رہتی ہوں، اسے کیفے ز اور اچھے ریستوراں کی وجہ سے خاص شہرت حاصل ہے۔ مگر اس سڑک پر واقع اکثر بلڈنگیں دو یا تین اسٹیپس اونچی ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ میں روزانہ ادھر سے گذرتے ہوئے، اپنے پسندیدہ کھانے شو ونڈوز میں دور سے دیکھتی جاتی ہوں مگر کسی بھی ہوٹل میں جا کر کچھ بھی کھا نہیں پاتی کیوں کہ میں وھیل چیئر پر ہوتی ہوں جو اوپر نہیں چڑھ سکتی۔کیفے ز والے کہتے ہیں کہ ان کی عمارتیں ثقافتی ورثے کے طور پر محفوظ کی گئی ہیں، اس لیے ریمپ بنانے کی گنجائش نہیں ہے۔مگراب میں نے سنا ہے کہ ایسی وھیل چیئرز ایجاد ہو چکی ہیں، جو خودکار طریقے سے زینے چڑھ سکتی ہیں۔ اگر یہ مارکیٹ میں آجائیں تو میں سب سے پہلی خریدار ہوں گی‘‘۔

وہ ہنس کر بات پوری کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ جس ملک آسٹریلیا میں جسمانی لاچار لوگوں کے لیے سرکاری طور پر ریمپ کی سہولت میسر نہیں، اسی ملک میں معذور افراد کی شرح 18فیصد ہے!۔

اسٹیسی کو یہ الیکٹرک وھیل چیئر ان کی معذوری کی انشورنس کے طفیل ملی ہے۔اسے ایک بار چارج کرنے سے یہ24کلومیٹر تک چلتی رہتی ہے۔جس سے کسی بھی بڑے شہر میں اسٹیسی پورا دن اچھی طرح گھوم لیتی ہے۔

جسمانی طور پر معذورافراد کی زندگی آسان بنانے کے آسٹریلیائی حکومت کے پروجیکٹ میں ریسرچ کے شعبے کے سربراہ جیروم راشیل کہتے ہیں :

’’اس ریسرچ میںمجھے اسٹیسی جیسے بہادر اور باصلاحیت لوگوں کے بلاگس پڑھنے سے زیادہ فائدہ ملا ہے۔ کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنھیں دن رات ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن پر ہم تحقیق کر رہے ہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ جیسا کہ بسوں اور ٹراموں کے فلور اونچے رکھنے کی ٹھوس وجوہات اپنی جگہ،مگر اس سے معذور لوگوں کو جو تکلیف ہوتی ہے، وہ ہمارے معاشرے، ہمارے نظام کا اہم مسئلہ ہے، جسے بہرحال حل کرنا لازمی ہے۔اس لیے ہم جو اس حوالے سے ورکشاپ اور سیمینار کراتے ہیں، میری گذارش پر اب ان میں معذور افراد کو بھی شریک کیا جاتا ہے اور سفارشات مرتب کرنے سے پہلے ان کو سنا جاتاہے اور ان کی تجاویز کو اہمیت دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کو بھی خصوصی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔آپ یہ دیکھیے کہ دو ہزار سال قدیم کولوزیم بلڈنگس میں معذور افراد کے لیے زینے کے ساتھ ریمپ کی سہولت دی جاتی تھی تو ہم آج اکیسویں صدی میں اپنی بلڈنگس اور گاڑیوںمیں یہ کیوں نہیں کرسکتے؟ ‘‘۔ 

ایک اورمشہور وھیل چیئر ٹورسٹ ایلیزیا کیزیرین ، جن کا تعلق کیلیفورنیا سے ہے، وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والدین نے انھیں اس طرح تربیت دی ہے کہ وہ اپنی معذوری کے باوجود مہم جوئی اور دنیا کی سیاحت کرنے کے لیے لڑکپن ہی سے پر تولتی رہی ہیں۔ ایلیزیا جب اٹھارہ سال کی ہونے والی تھیں تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی آنے والی سالگرہ کسی دوسرے ملک میں منائیں گی اور اس کے لیے کسی کو ساتھ نہیں لے جائیں گی۔یہ ان کے وھیل چیئر ٹریولنگ کے کیریئر کا آغاز تھا۔وہ بتاتی ہیں:

’’مجھے پتا تھا کہ سیر و سفر میں ایسی طاقت ہے کہ یہ میری سوچ کا دھارا ہی بدل دے گی۔لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ سیاحت میری سوچ ہی نہیں،زندگی ہی بدل دے گی۔۔۔اور یہی میرا کیریئر بن جائے گی۔میرے جاننے والے ابتدا میں حیران ہوتے تھے کہ میں کیسے اس معذوری کے ساتھ اکیلی ملکوں ملکوںگھومتی پھرتی ہوں؟مگر اب انھیں بھی پتا چل گیا ہے کہ دنیا میں اچھے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں جو میرے جیسے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے مجھے خود کو اس قابل بنانا پڑا تھا کہ میں کسی کی  مدد کے بغیر سفر کرسکوں‘‘۔

ایلیزیا کیزیرین ایک سیاحتی سائیٹ WHEELIES AROUND THE WORLDکی بانی ہیں ،جس پر وہ اپنی دنیا بھر میںسیاحتی سرگرمیوں کی رپورٹس اور تصویریں اپ لوڈ کرتی رہتی ہیں۔وہ پیدائشی معذور نہیں ہیں بلکہ لڑکپن میںاوریگون میں ہائیکنگ کے دوران ایلیزیا ایک پہاڑ سے گر کر حادثے کا شکار ہوگئی تھیں، جس سے عمر بھر کی معذوری ان کا مقدر بن گئی اور وہ وھیل چیئر پر آگئیں۔وہ بتاتی ہیں:

’’ہم دو بہنیں ہیں اور سیر و سیاحت ہم دونوں کی گھٹی میں ہے۔ہمارے والدین بچپن ہی سے ہمیں گھمانے، ہائیکنگ کرانے اور تاریخی مقامات دکھانے کے لیے لے جاتے تھے۔روزمائیٹ اور کیلیفورنیا کا ’بے ایریا‘ ہمارا پسندیدہ علاقہ ہوتا تھا۔جہاں ہم کیمپنگ بھی کرتے تھے۔اس طرح سیاحت سے محبت مجھے ورثے میں ملی ہے۔حادثے کے بعد جب میں سال بھر اسپتال میں تھی تو اس دوران سوچتی رہتی تھی کہ مجھے تو پوری دنیا دیکھنا تھی۔ابھی تو میں نے اپنے ملک کے کئی تفریحی مقامات نہیں دیکھے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی ہوں۔ آخر میرے خوابوں کا کیا ہوگا؟ میں دل ہی دل میںان سب مشہور جگہوں کے نام دہراتی رہتی تھی، جہاں جانے اور گھومنے پھرنے کے منصوبے میں نے بنائے ہوئے تھے مگر اب میںمایوس ہوچکی تھی کہ وہاں نہیں جا سکوں گی اور نئے نئے لوگوں سے بھی نہیں مل سکوں گی۔ جلد ہی میں نے اس معذوری کو قبول کرلیا اور خود سے سمجھوتہ کرلیا کہ یہی اب میری نارمل زندگی ہے۔ جب یہ بات میں نے اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھالی تو پھر آنے والی تکلیفیں اور لوگوں کی باتیںاور دیکھنے والوںکی ہمدردی قبول کرنا بھی میرے لیے آسان ہوگیا۔مگر میرے خاندان اور قریبی دوستوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا ،میرا دل بڑھایا اور ہر طرح سے میرا ساتھ دیا۔انھوں نے ڈاکٹروں ہی کی طرح مجھے اٹھایا بٹھایااور وھیل چیئر پر زندگی کے معمولات نبھانا سکھایا۔جوتے پہننا، چیئر پر بیٹھنا اور اسے چلا کر مختلف کمروں میں جانا یا دوسری ضروریات پوری کرنا اُس وقت میرے لیے آسان نہیں تھا مگر اب یہ سب مشکل محسوس نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ جب میرے ڈیڈ نے مجھے معمول کی زندگی میں واپس لوٹتے دیکھا تو انھوں نے ہی مجھے تحریک اور ترغیب دی کہ میں سیاحت کا اپنا شوق پھر سے پورا کرنے کے لیے کیوں نہیں سوچتی؟

’’مگر ڈیڈ! اس حال میں کیسے وہ ممکن ہوگا؟‘‘۔

’’کیوں نہیں ہوسکتا؟ میں نے تمھارے لیے انٹرنیٹ سے کچھ میٹر نکالا ہے، اس کے پرنٹ آئوٹ تمھیںدیتا ہوں، تم پہلے انھیں پڑھ لو۔۔۔پھر ہم اس موضوع پر دوبارہ بات کریں گے‘‘۔

انھوں نے جو مواد مجھے لا کر دیا، وہ پڑھ کر میری دنیا ہی بدل گئی اور یوں سمجھیں کہ میں ایک بار پھر جی اٹھی۔ ان پیپرز میں دنیا کے مختلف ملکوں کی ان لڑکیوں کا احوال تھا جومعذور ہونے کے باوجود دنیا دیکھتی پھرتی تھی اوراپنے تجربات اور مشاہدات بلاگس یا وی لاگس کے ذریعے دنیا بھر سے شیئر بھی کرتی پھرتی ہیں۔دوسرے دن میں جب میرے ڈیڈ آئے تو میں نے انھیں دیکھتے ہی کہا:

’’اچھا تو پھر پہلا ملک کون ساہونا چاہیے، جہاںمجھے جانا چاہیے؟‘‘۔

یہ بات سن کر وہ ہنس پڑے مگر ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آگئے تھے۔کہنے لگے:

’’جو بھی ملک تم پسند کرو، میں سارا انتظام کرا دیتا ہوں۔۔۔ تم بس اپنی تیاریاں کرلو‘‘۔

 اس موقع پر میرے ایک ڈاکٹر نے میری بہت مدد کی جو میرے جیسے مریضوں کو نارمل زندگی کی جانب لانے کے اسپیشلسٹ ہیں۔ وہ مجھے ایئرپورٹ لے گئے اور وہاں پہنچ کر وہ سب کام کرنا سکھائے جو ایک معذور کو ہوائی سفر کرنے کے لیے کرنا پڑتے ہیں۔یعنی وھیل چیئر پر بیٹھ کر ایئر پورٹ میں کیسے داخل ہوا جائے؟اپنا سامان کیسے سنبھالا جائے؟ضروری معلومات لینے کے لیے متعلقہ کائونٹر تک کیسے جایا جائے؟ وھیل چیئر سے، اس ہلکی سی ایزل چیئر پرکیسے منتقل ہوا جائے جو ہمیںجہاز میں اپنی مقررہ سیٹ تک لے جاتی ہیں۔اور اس چیئر سے پھر سیٹ پر منتقل ہوناوغیرہ۔

اس طرح میرے اندر اعتماد آگیا کہ میں عام لوگوں کی طرح سب کچھ کر سکتی ہوں۔اس مشق کے بعد میں نے تنہاپہلا سفر آسٹریا کے شہر ویانا کا کیا۔یہ سفر میرے لیے سرخوشی، کامیابی اور نئی نئی منزلیں سر کرنے کا سنگِ میل ثابت ہوا اور اس کامیاب سفر کے بعد ایک ہی سال میں، میں نے دس ملکوں کی سیاحت کرلی اور وہ بھی اکیلے اور وھیل چیئر پر!۔یوںوھیل چیئر اب میری زندگی۔۔۔ بلکہ میرے جسم کا حصہ بن گئی ہے۔اب تو اتنا بھی کرلیتی ہوں کہ جہاز تک پہنچنے کے بعد اس میں سوار ہونے اور اپنی سیٹ تک منتقل ہونے میںکسی کی مدد نہیں لیتی۔اس سیاحت کی ابتدا میں میرا سب سے اچھا دن وہ ہوتا ہے ،جب میں اپنی وھیل چیئر پر کم از کم بیس کلومیٹر تک کسی شہر میں گھومتی ہوں اور مقامی لوگوں سے بات چیت کرتی ہوں۔ اس دوران میں ہر دیکھنے والی جگہ دیکھتی ہوںاور ہر اچھی چیز ٹرائی کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔اتنی طویل مشقت سے میری کمر تختہ ہوجاتی ہے مگر میرا دل گھومنے سے پھر بھی نہیں بھرتا۔ اتنی ساری خوبصورتی کو اپنے اندر سمانے کے لیے، جذب کرنے کے لیے کمرکا درد برداشت کرنا کوئی بڑی قربانی تو نہیںنا؟۔جب میں نے انسٹاگرام پر Wheelies Around the Worldشروع کر کے اپنی وھیل چیئر سیاحت کی پوسٹس شیئر کرنا شروع کیں تو لوگوں نے بہت اچھا ریسپونس دیااور میری طرح کی دوسری لڑکیوں نے بھی اس سے متاثر ہو کر وھیل چیئر تورازم شروع کیا۔ اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میری کوششوں کا اتنا اچھا نتیجہ نکل رہا ہے۔میں اب سب کو کہتی رہتی ہوں کہ زندگی بہت مختصر ہے۔ اس کو جیسی ہے، ویسے ہی قبول کیا جائے اور اس کے ہر لمحے کو مناسب طور پر استعمال کرنا ہی اس کا شکر ادا کرنے کے برابر ہے۔۔۔اورآپ جو معذور بھی نہیں ہیں، وہ کیوں گھر اور دفتر یا کاروبار ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں؟۔۔۔کمائی میں سے تھوڑی سی بچت کیجیے اور دنیا دیکھنے کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ یہ ایک نئی زندگی ملنے کے مترادف ہوگا‘‘۔

اور اب ہمارے پڑوسی دیس کی معذور سیاح پرویندر چائولہ کی بات کرتے ہیں، جو وھیل چیئر پر سیاحتی ملکوں کی چوتھائی سینچری مکمل کرنے والی ہیں۔انھوں نے وھیل چیئر کے ساتھ بیک پیکنگ ٹریولنگ کر کے ہمت اور حوصلے کی نئی داستان رقم کی ہے۔پرویندر چائولہ کی عمر 48سال ہے اور ان کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی سفر کی پیشگی تیاری یا بکنگس نہیں کرتیں بلکہ محاورے کے مطابق ’منہ اٹھا کر‘ چل پڑتی ہیں۔کسی بھی شہر پہنچ کر اگر ہوٹل یا مسافر خانے میں جگہ نہ ملے تو کسی مقامی گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر اپنا تعارف کراتی ہیں اور ایک یا دو راتیں ان کے ہاں ٹھہرنے کی گذارش کرتی ہیں۔ اور عموماً ان کی ایسی گذارش قبول کرلی جاتی ہے۔اس طرح جہاں رہنے، کھانے پینے کا مفت بندوبست ہوجاتا ہے، وہاں مقامی لوگوںکے رہن سہن، خوراک، ان کی ثقافت سے واقفیت ہوتی ہے، وہاں نت نئے مگر اچھے اور ہمدرد افراد سے دوستی بھی ہوجاتی ہے۔انھوں نے تائیوان میں پیرا گلائیڈنگ کی ہے اور ان کے بقول، چین جیسےnot wheelchair-friendlyملک کی سیاحت بھی کی ہے۔اس کے ساتھ وھیل چیئر پر بیٹھے، پرویندر نے آدھا من وزنی سامان کا بوجھ اپنی پشت پر بار کر کے کئی ملکوں میں سفر(suffer?) کیا ہے۔ویسے ان کی ابتدائی زندگی تکلیف دہ امراض سے لڑتے ہوئے واقعتاً انگریزی کےsufferکے برابر تھی۔جوڑوں کے درد نے انھیں بستر تک محدود کردیا تھا۔ اسی کیفیت میں پرویندر چلنے سے لاچار ہوگئیں۔مگر انھوں نے ذہنی طور پر اپنی معذوری کو قبول نہیں کیااور اسی مضبوط قوتِ ارادی کا کرشمہ ہے کہ وہ موذی مرض کا منہ چڑا کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور ایک کال سینٹر میں ملازمت کرلی۔وہاں سے چھوڑا تو ایک ڈے کیئر سینٹر میں کام کیا اور پھر اپنی کیٹرنگ سروس شروع کردی۔اس طرح مختلف کاموں سے بچت کر کے انھوں نے دنیا دیکھنے کی اپنی خواہش پوری کی۔ پہلی بار وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گل مرگ گئیں۔وہاں پہاڑوں پر برف کا لطف لیا اور اس کے لیے دوستوں کو زحمت دینے کے بجائے اپنی وھیل چیئر دھکیلنے کے لیے ایک مزدور کر لیا۔وہ کہتی ہیں:

’’گل مرگ کا علاقہ میرے لیے جنت تھا اور وہیں میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جس طرح بھی بن پڑا، میں یہ خوبصورت دنیا پوری کی پوری دیکھوں گی۔اس فیصلے پر میں اٹل رہی۔ نہ گھر والوں کے خدشات کو خاطر میں لائی اور نہ ہی دوستوں کی باتوں پر دھیان دیا۔گھر واپس آکر میں کئی ٹریول کمپنیوں سے رابطہ کیا اور اپنی جسمانی حالت بتا کر ٹرپ بک کرانے کی کوششیں کی مگر ہر جگہ سے معذرت کی گئی کہ وہ وھیل چیئر کے ساتھ کسی  اکیلے سیاح کو کہیں لے جا نہیں سکتے۔ہاں، اگر اس کے ساتھ کوئی مددگار ہو تو پھر ممکن ہے۔ مگر میں کسی کی مدد کے بغیر اپنے بل بوتے پر سفر کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے بکنگ کا جھنجھٹ چھوڑا اور اپنی مرضی سے، بغیر کسی تیاری کے سفر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میری پہلی منزل ملائیشیا تھی، جہاں میں نے ایسے ہوٹل منتخب کیے، جن میں وھیل چیئر کے ساتھ آنے جانے کی سہولت موجود تھی۔اس طرح میں نے اپنی زندگی بدل ڈالی۔ ابھی تک میں 63ملک دیکھ چکی ہوں۔ اور میرا مقصد یہ رہ گیا ہے کہ میرے پاسپورٹ پر ہر ملک کی مہر لگی ہو۔جب تک یہ مقصد پورا نہیں ہوتایا جب تک زندگی نے ساتھ دیا، تب تک یہ سفر جاری رہے گا ‘‘۔

پرویندر چائولہ سوشل میڈیا کی سہولت اور طاقت سے متعلق کہتی ہیں:

’’اگر یہ میڈیا نہ ہوتا تو آج میںسیاح نہ ہوتی کیوں کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوپاتا کہ میرے جیسے لوگ کیسے اپنی آئیڈیل زندگی گذار رہے ہیں۔اس لیے میں اس میڈیم کی شکر گذار ہوں‘‘۔

دنیا بھر میں پرویندر چائولہ، اسٹیسی، ایلیزیااور ولیسیا جیسی سیکڑوں ہزاروں ہیں جو معذوری کے باوجود اللہ تعالیٰ کی اس خوبصورت دنیا کو دیکھنے اور ہم جیسے ’عام‘ لوگوں کو دکھانے کا اہم کام کر رہی ہیں۔ اور دیکھا جائے تو وہی خاص لوگ ہیں۔

وھیل چیئر ٹریولنگ ڈاٹ کوم

یہ سائیٹ ایسے نوجوان لڑکے لڑکیوں نے 2006ء میںشروع کی ، جن میں سے بیشتر جسمانی طور پر معذوری میں مبتلا ہیں مگر سیاحت ان سب کا مشترکہ شوق بلکہ جنون ہے۔ان کا مقصد اپنے جیسے معذور افراد کو دنیا دیکھنے کے لیے قائل کرنا اور اس کام میں ان کی ہر طرح سے مدد کرنا ہے۔اس کے علاوہ یہ لوگ ان ملکوں کے شعبہ سیاحت کے حکام سے مسلسل رابطے کرتے ہیں ،جہاں معذوروں کے لیے ٹرانسپورٹ میں سہولیات نہیں ہوتیں۔ یہ انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر وہ بسوں، ٹرینوں اور پبلک مقامات پر ریمپس وغیرہ کی سہولت مہیا کریں تاکہ وھیل چیئر پر سفر کرنے والے سیاح ان کے ہاں بھی آئیں۔ اس طرح ان کے ملک کو کمائی بھی ہوگی اور اس کی شہرت بھی ہوگی۔اس سائیٹ پر کئی درجن ملکوں کے سیکڑوں شہروں اور سیاحتی دلچسپی کے حامل مقامات کی گائیڈز، نقشے اور دیگر ضروری معلومات بھی دی گئی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس ویب سائیٹ کی بانی لڑکی وہ ایشلے لائن اولسن ہے جو 14سال کی عمر میںایک حادثے کا شکار ہو کر ،چلنے پھرنے سے محروم ہو گئی تھی مگر ہمت اور حوصلے سے محروم نہیں ہوئی۔ اس نے اس سائیٹ کے ذریعے قابلِ قدر وسائل اور ایک بڑا نیٹ ورک بنا لیا ہے ،جس کے باعث اب وہ سیاحتی پروڈکٹس کی دو کمپنیوں کی مالک بن چکی ہے۔اس نے اب تک دنیا کے

 تمام براعظموں میں تقریباً65ملکوں کی 

سیاحت کی ہے۔