جنوبی امریکہ کا سوشلسٹ اور ہیوگو شاویز کا ملک ونیزویلا آج کل جس سیاسی کشمکش کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے اس میں اہل بصیرت کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔اوپیک اور تیل کا برامدی ملک ہونے کے باوجود وینزویلا کے عوام کی حالت زار کا دن بدن قابل رحم ہونا،کساد بازاری،افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں مضحکہ خیز حد تک ناقابل یقین اضافہ اور اشیائے ضروریات کی عدم فراہمی اپنی جگہ ایک قابل غور تضاد ہے۔ اس کے علاوہ ان بدترین حالات میں عوام کو سنبھالا دینے کی بجائے برسراقتدار اشتراکی اشرافیہ آپس میں آئینی چپقلش میں مصروف ہے ۔ ایسے میں عالمی سامراج روس اور امریکہ کیوں نا اپنا کھیل کھیلیں جبکہ انہیں تو موقع کی تلاش رہتی ہے۔جلد ہی خدا نے چاہا تو وینزویلا جنوبی امریکہ کے شام کا منظر پیش کرنے لگے گا جس میں ایران اپنا ویسا ہی کردار ادا کرے گا جیسا کہ اس نے شام میں ادا کیا ہے۔ بات لیکن اتنی سادہ بھی نہیں ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے ونیزویلا کے موجودہ آئینی بحران کو سمجھنا ضروری ہے جس سے فائدہ اٹھا کر امریکہ اور روس وہاں لشکرکشی کے لئے پر تول رہے ہیں۔ وینزویلا کے موجودہ آئینی صدرنکولس مادورو ہیوگو شاویز کے انتقال کے بعد معمولی اکثریت کے ساتھ پہلی بار اپریل 2013 ء میں برسراقتدارآئے اس کے ساتھ ہی وینزویلا کی معیشت انحطاط پزیر ہوتی چلی گئی جس کا ذمہ دار عوام نے انہیں ٹھہرایا حالانکہ یہ زوال گزشتہ پندرہ سالوں سے جاری تھا یہ البتہ درست ہے کہ مادورو کی معاشی پالیسیوں نے اس میں اضافہ ہی کیا۔ان ہی حالات میں مئی 2018 ء میں قبل از وقت انتخابات ہوئے ۔یہ نہایت متنازعہ انتخابات تھے اور حزب اختلاف کی اکثر جماعتوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔دراصل ان میں سے اکثر یا تو انتخابات کے لئے نااہل ہوچکے تھے یا پابند زندان تھے یا گرفتاری کے خوف سے ملک سے فرار ہوچکے تھے۔ایسے میں مادورو کے لئے منتخب ہونے کے سوا کیا چارہ تھا، سو وہ ہوگئے اور موجودہ آئینی بحران اس کے بعد پیدا ہوا۔ونیزویلا میں دو اسمبلیوں کے لئے انتخابات ہوتے ہیں۔ایک قانون ساز یا قومی اسمبلی اور دوسری آئین ساز اسمبلی۔قانون ساز اسمبلی میں موجودہ حزب اختلاف کی اکثرت تھی جبکہ صدر مادورو آئین ساز اسمبلی کے سربراہ ہیں۔ان قبل ازوقت انتخابا ت کو جس کے نتیجے میں مادورو صدر منتخب ہوئے،قومی اسمبلی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ادھر موصوف نے اعلان کیا کہ وہ پہلے اپنی نامکمل صدارتی مدت پوری کریں گے جو درمیان میں ہی رہ گئی تھی اس کے بعد نئے عہدے کا حلف اٹھائیں گے جو دس جنوری کو شروع ہونی تھی۔حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ چونکہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے اس لئے صدر مادورو صدرنہیں ہیں اور صدارت کا عہدہ ہنوز خالی ہے۔اس موقع پہ حزب اختلاف کے نوجوان سربراہ جوان گائڈو آئین کی شق 233 اور333 ہاتھ میں لہراتے میدان میں آئے جس کے تحت ایسی گھمبیر صورتحال میں قومی اسمبلی کا سربراہ عبوری صدر بن سکتا ہے۔لہٰذا انہوں نے اپنی صدارت کا اعلان کردیا جسے مادورو نے مسترد کردیا اور موجودہ صورتحال نے جنم لیا۔ملک کی آئینی اسمبلی میں صدر مادورو کے حامیوں کی اکثریت ہے جو قومی اسمبلی کے ہرآئینی اقدام کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سربراہ کے ا قدامات پہ آئینی مہر ثبت کردیتی ہے۔جس وقت ملک میں یہ آئینی بحران جاری تھا ، وینزویلا کا معاشی بحران اپنے چوتھے سال میں داخل ہوچکا تھا۔افراط زر میں اتنا اضافہ ہوچکا تھا کہ حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت یعنی پچاس لاکھ بولیوار ماہانہ سے صرف ایک مرغی خریدی جاسکتی ہے۔کرنسی نوٹوں کی ایسی قلت ہے کہ لوگ دنوں بینکوں میں قطار لگائے کھڑے رہتے ہیں۔ٹرانسپورٹر من مانے کرائے وصول کررہے ہیںجس پہ قابو پانے کا واحد ذریعہ میٹرو ہے جس کا ٹکٹ مفت کردیا گیا تھا کیونکہ اسے چھاپنے کے لئے درکار رقم کرائے کی رقم سے بڑھ گئی تھی۔مفت کی میٹرو کب تک چلیں گی کوئی اندازہ نہیں۔ بجلی اور پانی کی شدید قلت ہے اور فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔بنیادی ڈھانچوں کو کرپشن اور بدانتظامی کھاگئی ہے۔عوام اس حد تک بدد ل ہوچکے ہیں کہ چند سالوں کے دوران بیس سے چالیس لاکھ افراد دوسری ملکوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں جہاں وہ بدترین استحصالی حالات میں اتنا کما سکتے ہیں کہ پسماندگان فاقے نہ کریں۔مزدوروں اور محنت کشوں کی اس ہجرت کا لازمی نتیجہ قومی اداروں کی بندش ہے۔یہاں تک کہ وہ فیکٹری بھی بند ہونے کے قریب ہے جسے خالص اشتراکی اصولوں پہ محنت کش چلانے کی کوشش کررہے تھے اور کسی حد تک کامیاب بھی تھے۔کیراکاس کی کالیجو یونیورسٹی کے نوے فیصد طلبا تعلیم کو خیرباد کہہ چکے ہیں حالانکہ جامعہ انہیں تین وقت کا کھانا فراہم کرتی تھی لیکن آمدورفت کا کرایہ کہاں سے دیتی۔ان حالات کا ذمہ دار آسانی سے اشتراکی اصلاحات کو ٹھہرایا جا سکتا ہے جس میں کسانوں کے لئے مشترکہ اراضی ، مفت گھر جن کا کوئی کرایہ نہیں آتا اور ڈبہ بند خوراک کے رعایتی پیکٹ جن میں شامل غذا تمام ترکی اور دیگر ممالک سے درآمد شدہ ہوتی ہے،شامل ہیں لیکن آئینی بحران میں مشغول سیاسی اشرافیہ اتنی ہی ذمہ دار ہے جو اپنے آئینی حقوق کی خاطر آپس میں دست وگریبان رہی اور عوام خون تھوکتی رہی۔صدرمادورو نے بجائے عوام کے زخموں پہ مرہم رکھنے کے فوجی اشرافیہ کو نوازا،سولہ ہزار فوجیوں کو ترقیاں دیں اور تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ملک کی سب سے بڑی زرعی اشیائے ضرورت کی فراہمی کی سرکاری ملکیتی کمپنی ایگروپیٹریا فوجی جرنیل چلا رہے ہیں جو اختیارات سے تجاوز اور بدعنوانی کے باعث کسانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے جوان گائیڈو کے سر پہ دست شفقت رکھ دیا اور انہیں آئینی صدر تسلیم کرکے گویا جلتی پہ تیل چھڑک دیا۔جوابا صدر مادورو نے تمام امریکی سفارت کار ملک سے بے دخل کردئے۔یوں ونیزویلا کا اندرونی آئینی بحران ایک بین الاقوامی تنازعہ میں تبدیل ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ صدر مادورو کے خلاف امریکہ نے سازشوں کے جال بن رکھے تھے۔ اگست میں ایک فوجی تقریب کے دوران صدر مادورو پہ قاتلانہ حملہ ہواجس کا ذمہ دار انہوں نے پڑوسی ملک کولمبیا کو ٹھہرایا جو خطے میں امریکہ کا خاص گماشتہ ہے۔جوان گائیڈو کے امریکہ میں بینک اکاونٹ موجود ہیں۔حالیہ بحران کے دوران کولمبیا میں امریکہ نے مزید فوجی دستے بھیج دیے ہیں جس سے امریکی عزائم کا اظہار ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی روس نے ونیزویلا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس سے لئے قرضہ جات وقت پہ ادا کرے۔ادھر حزب اللہ نے ونیزویلا میں سونے کی کانیں خرید رکھی ہیں جہاں سے اس کے مشرق وسطی کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ونیزویلا کی تیل کی کمپنیوں پہ عائد پابندیوں نے سعودی عرب کو الگ تشویش میں مبتلا کردیا ہے جس نے اوپیک کی پیداوار میں کمی کردی تھی۔ایران پہلے ہی پابندیوں کی زد میں ہے ۔ایسے میں تیل کے بحران کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔صدر ٹرمپ ماضی میں کئی بار ونیزویلا پہ لشکرکشی کا کئی بار عندیہ دے چکے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو ایران اور روس خاموش تماشائی نہیں بنیں گے اور دنیا ایک اور شام کا نظارہ کرے گی۔