لاہور(خصوصی رپورٹ،ڈاکٹر محمد مشتاق )سپریم کورٹ نے ویڈیو سکینڈل کیس میں پانچ تنقیح طلب امور متعین کیے ہیں اور پھر ان پر الگ الگ فیصلہ دیا ہے :1۔ میاں صاحب کے مقدمے کے تناظر میں کون سی عدالت اس وڈیو کودیکھ کر یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ میاں صاحب کے خلاف فیصلہ قانوناً درست تھا یا نہیں؟ 2۔ وڈیو کو بطورِ "ثبوت" مستند مان لینے کی شرائط کیا ہیں؟ ،3۔ بطورِ ثبوت مستند مان لیے جانے کے بعد وڈیو کو عدالت میں کیسے ثابت کیا جائے گا؟ ،4۔ بطورِ ثبوت مستند مان لیے جانے اور عدالت میں ثابت کیے جانے کے بعد وڈیو کا میاں صاحب کے خلاف فیصلے پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ 5۔ جج محمد ارشد ملک کا اس سارے معاملے میں کردار۔ پہلا امر : وڈیو کے متعلق فیصلہ کرنے کی مجاز عدالت کون سی ہے ؟ ۔سپریم کورٹ نے تصریح کی کہ اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ ہی وہ عدالت ہے جو شواہد کی بنا پر نواز شریف کی سزا برقرار رکھنے ، تبدیلی کرنے یا اسے ختم کرنے کی مجاز ہے اور یہ کہ انکوائری کمیشن یا کمیٹی حکومت نے بنائی ہو یا اس عدالت نے ، وہ اس معاملے میں صرف رائے دے سکتی ہے ، فیصلہ نہیں۔ عدالت نے مزید یہ قرار دیا کہ متعلقہ وڈیو میاں صاحب کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک اسے باقاعدہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے زیرالتوا اپیل میں پیش کیا جائے ، اس کا مستند ہونا ثابت کیا جائے اور پھر قانون کے مطابق اسے عدالت میں ثابت کیا جائے ۔ دوسرا امر: کیسے معلوم ہوگا کہ وڈیو مستند ہے ؟ ۔اس کا سادہ جواب سپریم کورٹ نے یہ دیا کہ فرانزک تجزیے کے بغیر اسے مستند ماننا ممکن نہیں اور آڈیو یا وڈیو ٹیپس کے متعلق کسی حقیقی شبے کی موجودگی میں اسے قابلِ اعتماد نہیں مانا جاسکے گا۔ تیسرا امر: وڈیو مستند ہو تو اسے عدالت میں کیسے ثابت کیا جائے گا؟ ۔ نہ صرف موجودہ کیس کے تناظر میں، بلکہ بالعموم آڈیو /وڈیو ٹیپس کے متعلق قانونی اصولوں کی وضاحت کے لیے اس حصے کا تجزیہ بہت ضروری ہے ۔اس سوال کے جواب میں سپریم کورٹ نے بہت سارے کیسز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ اصول طے کیے ہیں،1۔ کسی آڈیو /وڈیو ٹیپ پر اس وقت تک عدالت اعتماد نہیں کرسکتی جب تک پہلے یہ ثابت نہ ہو کہ وہ مستند ہے اور اس میں کوئی ڈاکٹرنگ یا ٹیمپرنگ نہیں کی گئی؛ 2۔ اس ضمن میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کو عدالت کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے ؛ 3۔ قانونِ شہادت کی دفعہ 164 کے تحت ایسی کسی آڈیو یا وڈیو ٹیپ کے پیش کیے جانے یا نہ کیے جانے کا اختیار متعلقہ عدالت کے پاس ہے ؛ 4۔ عدالت کی جانب سے اجازت دینے کے بعد متعلقہ آڈیو یا وڈیو کو قانونِ شہادت کے اصول و ضوابط کے مطابق ہی عدالت میں پیش کیا جائے گا؛ 5۔ ریکارڈنگ کا صحیح ہونا لازماً ثابت کیا جا ئیگا اور ٹیمپرنگ کے امکانات کی نفی کے لیے براہِ راست یا واقعاتی شہادتیں پیش کی جانی ضروری ہیں؛ 6۔ کسی گفتگو یا واقعے کی ریکارڈنگ ہوئی تو اصلی ریکارڈنگ ، جب گفتگو ہوئی یا واقعہ ہوا، پیش کرنا ضروری ہے ؛7۔ جس شخص نے ریکارڈنگ کی ہے ، اس کا پیش کیا جانا ضروری ہے ؛ 8۔ ضروری ہے کہ جس شخص نے ریکارڈنگ کی ہے ، وہ خود ریکارڈنگ کی آڈیو /وڈیو ٹیپ پیش کرے ؛ 9۔ آڈیو /وڈیو ٹیپ کا عدالت میں چلانا ضروری ہوگا؛ 10۔ آڈیو/وڈیو ٹیپ کا واضح طور پر قابلِ سماعت/قابلِ رویت ہونا ضروری ہوگا؛ 11۔ ضروری ہوگا کہ بات کرنیوالے شخص/ دیکھے جانے والے شخص کو ریکارڈنگ کرنے والا خود پہچانے یا کوئی اور شخص جو اسے پہچانتا ہو، اس کی گواہی دے ؛ 12۔ موقع پر موجود کوئی اور شخص بھی گفتگو /واقعے کے متعلق گواہی دے سکتا ہے ؛ 13۔ جو آوازیں ریکارڈ کی گئیں، یا جو اشخاص نظر آئے ، ان کی صحیح پہچان لازمی ہوگی؛ 14۔ آڈیو/وڈیو کے ذریعے جو ثبوت پیش کیا جارہا ہو ، اس کے متعلق ضروری ہوگا کہ وہ مقدمے سے متعلق ہو ، یا کسی اور سبب سے مقدمے میں پیش کیے جانے کی قانوناً اجازت ہو؛ 15۔ ریکارڈنگ سے لے کر عدالت میں پیش کیے جانے تک ریکارڈنگ کی حفاظت ثابت کرنی ہوگی؛ 16۔ آڈیو/وڈیو ریکارڈنگ کا ٹرانسکرپٹ خود مختارنگرانی اور کنٹرول میں تیار کیا جائے گا؛ 17۔ آڈیو/وڈیو ریکارڈ کرنے والا شخص وہ ہوگا جس کے روزمرہ کے فرائض میں آڈیو/وڈیو ریکارڈ کرنا شامل ہو اور وہ ایسا شخص نہیں ہوگا جس نے ثبوت حاصل کرنے کے لیے جال بچھانے کی غرض سے آڈیو/وڈیو ریکارڈنگ کی ہو؛ 18۔ آڈیو/وڈیو کا ماخذ ظاہر کرنا لازم ہوگا؛ 19۔ جو شخص آڈیو/وڈیو ریکارڈنگ عدالت میں پیش کررہا ہو ، اس پر لازم ہوگا کہ وہ ریکارڈنگ کی تاریخ ظاہر کرے ؛ 20۔ عدالتی کارروائی میں نسبتاً تاخیر سے پیش کی جانے والی آڈیو/وڈیو ٹیپ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؛ 21۔ عدالت میں آڈیو/وڈیو ٹیپ کو بطورِ ثبوت پیش کرنے والے شخص پر لازم ہوگا کہ وہ عدالت کو اس ضمن میں باقاعدہ درخواست دے ۔ ان اصولوں کے طے کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے میاں صاحب کے مقدمے کے تناظر میں قرار دیا ہے کہ چونکہ ٹرائل کورٹ فیصلہ دینے کے بعد قانوناً اپنے فریضے سے سبکدوش ہوچکی ہے ، اور اس فیصلے کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے اس لیے متعلقہ وڈیو کے بارے میں ان اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا اختیار اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے پاس ہے ۔ یہاں سپریم کورٹ نے مجموعۂ ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 428 کا حوالہ دیا ہے جس کی رو سے اپیلیٹ کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ اضافی شواہد بھی لے سکتی ہے ۔ چوتھا امر: بطورِ ثبوت مستند مان لیے جانے اور عدالت میں ثابت کیے جانے کے بعد اس وڈیو کا میاں صاحب کے خلاف فیصلے پر اثر۔۔۔اگر مذکورہ اصولوں پر وڈیو مستند ثابت ہوجائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے ثابت بھی کی جائے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس مستند اور ثابت شدہ وڈیو میں جج کا جو کردار دکھایا گیا، کیا وہ فیصلے پر اثرانداز ہوا ہے یا نہیں؟ اس کے بعد وہ قانون کے مطابق جیسے مناسب سمجھے فیصلہ کرسکتی ہے اور اس سلسلے میں اسے اختیار ہے کہ خود شواہد کا جائزہ لے کر میرٹ پر فیصلہ کرے یا مقدمہ واپس ماتحت عدالت میں بھیج دے کہ وہاں از سرِ نو پورا مقدمہ چلایا جائے ۔ سپریم کورٹ اس اصولی موقف سے آگے مزید تفصیل میں نہیں گئی ۔پانچواں امر: فاضل جج محمد ارشد ملک کا اس سارے معاملے میں کردار۔۔سپریم کورٹ نے صراحتاً قرار دیا ہے کہ فاضل جج کی جانب سے 7 جولائی کو جاری کی جانے والی پریس ریلیز اور 11 جولائی کو جاری کیا جانے والا بیانِ حلفی خود اس کے خلاف باقاعدہ چارج شیٹ ہیں۔ ان دستاویزات سے جو کردار ابھر کر سامنے آتا ہے وہ پوری عدلیہ کے لیے بدنامی کا باعث ہے ۔ وہ اعتراف کرچکے ہیں کہ : 1۔ ان کا ماضی داغ دار تھاجس کی بنا پر اسے بلیک میل کیا جاسکتا تھا ؛ 2۔ مقدمات کے دوران میں وہ ان لوگوں سے ملتے رہے جو ان مقدمات کے ملزموں کے ہمدرد تھے ؛ 3۔ انھیں دھمکیاں د، لالچ بھی دیے گئے لیکن انہوں نے اپنے حکامِ بالا کو نہیں بتایا،4۔ سزا سنا نے کے بعد وہ سزا یافتہ شخص سے ایک اور شہر میں اس کے گھر پر ملے ؛ 5 ۔ وہ اس سزا یافتہ شخص کے بیٹے سے بھی ایک اور ملک میں ملے ؛ 6۔ اس نے سزا یافتہ شخص کو خود اپنے ہی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے میں مدد دی اور اسے اپنے فیصلے کی کمزوریاں بتائیں۔ فاضل جج کے اس انتہائی افسوسناک کردار کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ متعلقہ جج کی خدمات واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجی جائیں گی اور سپریم کورٹ نے توقع ظاہر کی کہ لاہور ہائی کورٹ اس کے خلاف فوری انضباطی کارروائی کرے گی۔ آخر میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ میاں صاحب کی سزا پر اس وڈیو کے اثرات پر وہ اس لیے بات نہیں کریگی کہ اب یہ معاملہ مجاز عدالت (اسلام آباد ہائی کورٹ) کے سامنے زیرِ التوا ہے ۔