جج صاحب کی ویڈیو کا تنازعہ تو سمجھئے کہ سلجھ گیا لیکن اس سلجھن کے اندر سے جو الجھنیں پھوٹی ہیں وہ الجھتی ہی جا رہی ہیںاور ڈور کا سرا ڈور والوں کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ وہی بات جو کبھی کسی کہنے والے نے کہی تھی کہ جنگ کرنے کا فیصلہ تو اختیاری ہے۔ لیکن جنگ شروع ہو جائے تو پھر بے اختیاری ہی بے اختیاری ہے۔ تنازعہ یوں سلجھا کہ خود حکومت نے سلجھا دیا۔ ایک روز اعلان کر کے کہ فرانزک کرائیں گے۔ اگلے روز یہ کہہ کر یوٹرن لے لیا کہ ہم تو فریق ہی نہیں۔ اگر فریق نہیں تو پھر وزیروں اور ترجمانوں کی فوج نے تردیدوں کے ڈھیر کیوں لگا دیا۔ پھر رات کی رات ایسا کیا ماجرا ہوا کہ فرانزک کا وعدہ الٹے پائوں پھر گیا؟ مسلم لیگ کا دعویٰ ہے کہ اس رات کچھ ہوا تھا۔ یہ کہ حکومت نے فرانزک کیا تھا اور اس فرانزک نے جو ’’عرفان‘‘ حکومت کو دیا اس کا تقاضا تھا کہ اگلے روز وہ الٹے پائوں پھر جائے۔ ہو سکتا ہے مسلم لیگ جھوٹ بولتی ہو بس پھر حکومت ہی ہے جو سچ بتا سکتی ہے اور وہ کہتی ہے ہم کیوں بتائیں‘ ہم تو فریق ہی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ کچھ ہفتے پہلے چیئرمین نیب کی ویڈیو چلی تھی‘ اس کا معاملہ ضرور ٹھپ ہو گیا۔ اندر سبھائی یاد دلانے والی اس ویڈیو کے باب میں حکومت نے کہا‘ مسلم لیگ کی گھنائونی سازش ہے لیکن اس گھنائونی سازش پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ شاید حکومت نے گھنائونے سازشیوں سے عفو اوردرگزر کا سلوک کیا۔ چیئرمین کی ذات پر کیچڑ اچھالا۔ چیئرمین صاحب نے بھی یہ سوچا ہو گا کہ اب ذاتیات پر کیا آنا، جو ہو چکا، سو ہو چکا‘ اب مٹی پائو۔ لیکن مسلم لیگ اس مٹی پانے کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈالنے کا سوچ رہی ہے۔ اس کے ایک رہنما نے رات کہہ دیا اس ویڈیو کی بھی تحقیقات کرائو۔ جعلی ہے تو جعلسازوں کو پکڑو۔ ٭٭٭٭٭ مریم نواز کے خلاف جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے ’’جرم‘‘ میں دوبارہ کارروائی شروع ہو گئی۔ اس کیس میں نیب عدالت پہلے ہی انہیں سات سال قید و جرمانے کی سزا سنا چکی ہے جو بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ سے اس بنا پر معطل ہو گئی کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں مریم کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور یہ کہ جعلی ڈیڈ کے حوالے سے ماہر رابرٹ ریڈلی کا بیان سنا ہی نہیں گیا جس میں مریم کے موقف کی تائید ہوتی تھی۔ دوبارہ مقدمے کی قانون میں گنجائش نہیں اور یہ کہ معطلی کے فیصلے کے خلاف نیب نے مقررہ وقت میں اپیل بھی نہیں کی۔ قانوناً نیب جو کر رہا ہے‘ محال ہے لیکن یہ نیا پاکستان ہے۔ یہاں راتوں رات قانون میں تبدیلی ہو جاتی ہے اور قانون کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ مریم نواز جس طرح سے سرگرم ہوئی تھیں اور جیسے جلسے جلوس وہ کر رہی تھیں ان کے بعد نیب کا حرکت میں آنا عین فطری ہے۔ نیب نے یہ کارروائی’’حق سچ‘‘ کے تقاضے پر کی۔ ٭٭٭٭٭ اس خبر کو محض اتفاق ہی سمجھئے کہ پنجاب میں نویں جماعت کی کتاب برائے مطالعہ پاکستان میں ختم نبوت کا ذکر حذف کر کے کچھ اور ہی بات لکھ دی گئی ہے۔ پہلے اسی کتاب میں لکھا تھا کہ آنحضرت کو آخری نبی ماننا عقیدے کا لازمی جزو ہے۔اب یہ فقرہ حذف کر کے لکھ دیا گیا ہے کہ اسوۂ حسنہ کو ماننا ضروری ہے۔ اخبار نے خبر میں پرانے اور نئے ایڈیشنوں کے عکس شائع کئے ہیں اور لکھا ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو توجہ دلائی گئی لیکن اس نے نوٹس نہیں لیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ایسے ہی اتفاقات پختونخواہ میں بھی ہوئے۔ وہاں ختم نبوت والی عبارت حذف کی گئی۔ حیرت انگیز اتفاق وہاں بھی یہ ہوا کہ محکمہ کی توجہ دلائی گئی اس نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور مزید اتفاق سے اسی صوبے کے محکمہ تعلیم نے الانفال کا ترجمہ مال غنیمت کے بجائے لوٹ مار کیا ۔ مزید اتفاق دیکھئے‘ پختونخواہ میں یہ کار نامے تب ہوئے جب وہاں پی ٹی آئی کی حکومت بنی۔ اب پنجاب میں بھی یہ ’’اجتہاد‘‘ ہو رہا ے تو تب ہو رہا ہے جب یہاں پی ٹی آئی سرکار آئی۔۔ محض اتفاقات ہیں اور کچھ نہیں۔ ورنہ بدظنی تو اس باب میں بھی کی جا سکتی تھی کہ نوازحکومت کے خلاف حلف نامے کی عبارت میں جس تبدیلی پر طوفان اٹھا تھااور وزیر قانون کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ وہ تبدیلی جن صاحب نے کی تھی اتفاق سے ان کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے تھا۔ انہوں نے تبدیلی کی اور دیکھئے بغیر مسلم لیگ ن ‘ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی سب نے ایک بار تو صاد کر دیا جیسا کہ اوپر اعتراف کیا گیا یہ بھی محض اتفاق کی بات تھی۔ (حکومت پنجاب کی طرف سے وضاحت ہو چکی ہے کہ یہ کتاب غیر سرکاری طور پر شائع ہوئی تھی‘ جسے ضبط کر لیا گیا ہے) ٭٭٭٭٭ سندھ سے ایک صدا بلند ہوئی ہے کہ راجہ داہر کو صوبے کا قومی ہیرو قرار دیا جائے دلیل میں یہ کہا گیا ہے کہ ان دنوں راجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کی لاہور میں نقاب کشائی کی گئی ہے۔ حکمران جماعت کے بعض رہنما رنجیت سنگھ کے فضائل بیان کرتے لکھتے بھی پائے گئے ہیں۔ سندھ والے اگر راجہ داہر کے حق میں ایسا مطالبہ کرتے تو یقینا ملک دشمن ‘اسلام دشمن ‘غدار وغیرہ قرار پائیں گے۔