ایک شاہی خاندان کے ولی عہد نے دستر خوان بچھایا ، دوسرے شاہی خاندان کی ولی عہد تشریف لے آئیں۔دائیں بائیں خدام ادب قطار اندر قطار ہاتھ باندھے حاضرتھے۔روایت ہے کہ یہ دعوت افطار تھی۔شہزادہ اور شہزادی اپنی سلطنتوں کو بچانے اکٹھے ہوئے ، حضرت مولانا فضل الرحمان کا معاملہ یہ ہے اقتدار سے باہر ہیں اور گویا ماہی بے آب ہیں۔ اب ’’ فراقَ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو‘ ؟تماشا یہ ہوا کہ قبلہ لیاقت بلوچ بھی تشریف فرما تھے۔’ معاذ اللہ ، چمکتے تھے ہوا میںـ‘۔ خواب میں جیسے ’’ وا مادولا‘‘ خواہ مخواہ ہی ہوتی ہے ، سیاست میں ویسے ہی اب جماعت اسلامی ہوتی ہے۔ کل تک جن کی کرپشن کے خلاف عمران کی جدوجہد پر منصورہ کی مہر ثبت کیے جانے کی ضد تھی آج صالحین انہی کے دستر خوان پر وفورِ گریہِ ہجراں میں مجنوں کی طرح لام الف لکھ رہے تھے۔ امیر محترم کی مستی ناز سے اب استاد ذوق یاد آتے ہیں: ’’ ہر اک سے ہے قول آشنائی کا جھوٹا وہ کافر ہے ساری خدائی کا جھُوٹا‘‘ افطار کیا تھا ، ایک منادی تھی ۔ اعلان عام تھا کہ اے عوام کالانعام ، غلام ابنِ غلام ابن ِ غلام، تم صرف شاہی خاندان کی اطاعت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ جمہوریت کے دعوے اور اقدار کی باتیںمحض برائے وزنِ بیت ہوتی ہیں۔ حقیقت بس اتنی سی ہے کہ قیادت کا تاج دو خاندانوں کی جاگیر ہے۔ اس جاگیر کے مزارعین اپنی اپنی خدمات کے درجے میں قدرو منزلت تو پا سکتے ہیں لیکن کوئی مزارع منصب قیادت کے اہل نہیں ہے۔ راجہ ظفر الحق کتنے ہی معتبر کیوں نہ ہوں ، انہیںبس جی کے بہلانے کو چیئر مین ہونے کا کھلونا دیا جا سکتا ہے، قیادت کا تاج نہیں پہنایا جا سکتا۔ انہیں اپنے سفید بالوں سمیت دختر نیک اختر کے پیچھے کھڑا ہونا ہو گا ۔ اعتزاز احسن اور رضا ربانی اپنے تئیں کتنے ہی بڑے دانشور کیوں نہ بن جائیں شہزادہ جواں بخت کا سہرا کہنا ان کے فرائض منصبی میں ہو گا۔حقوق انسانی کی اس صدی میں نام جمہوریت کا لیا جاتا ہے اور عقل و شعور سے مطالبہ ہے دو خاندانوں کی چوکھٹ پر کنیز بن کر بیٹھی رہی۔ یہ اکٹھ غلطی ہائے مضامین تھا، بزمِ سخن انتشار فکر کے سوا کچھ نہ تھی۔ اغراض کے بندے مفادات کو پیٹ رہے تھے۔شہزادہ ذی وقار بھول گئے کہ نواز شریف تو ان کے بقول جنرل ضیاء الحق کے بیٹے تھے اور ان سے معاملہ کرنا جمہوری اصولوں کو طلاق بائن کبریٰ دینے کے مترادف تھا۔کس رسان سے انہوں نے فرمایا تھا : می آں ناواز شاریف کا آصل باپ ضی آ اول حاق ہے؟ شہزادی کو بھی یاد نہ رہا وہ کس وارفتگی میں رعایا کو سمجھایا کرتی تھیں عمران کو دیا جانے والا ہر ووٹ زرداری کو جائے گا۔ ضروریات کا الائو بھڑکا تو دھوکے کی ہنڈیا جل کر راکھ ہو گئی۔ ساری ملمع کاری اتر گئی۔ سکوتِ ناز قصہ ماضی ہوا، ضروریات اب لبوں پر رقص زن ہیں۔دشمنی اور اختلاف بھول گئے ، اغراض نے انہیں ایک مالا میں پرو دیا۔جس کا پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنا تھی اس کے فرزند ارجمند کے ساتھ بیٹھ اب ارشاد تازہ یہ ہے میثاق جمہوریت کو عملی جامہ پہنانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔کون سا میثاق جمہوریت؟ میثاق جمہوریت یا میثاق ملوکیت؟ گھٹن اور تعفن کے مارے اس ماحول میں عمران خان ایک امید کی صورت سامنے آیا تھا۔ آٹھ ماہ کے دور حکومت میں مگر اس کے وزیران با تدبیر نے سماج کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ سماج سے کٹے ہوئے لوگ ہیں جو ٹوئٹر پر داد شجاعت دیتے رہتے ہیں۔ عوام خیر خواہی کی طالب ہے ان کے لہجے آگ اگلتے رہتے ہیں۔ عوام کو ڈھارس چاہیے یہ للکارتے رہتے ہیں۔ عوام کو عافیت کی طلب ہے یہ چیخیں نکلنے کی نوید سناتے ہیں۔مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کو گھائل کر چھوڑا ہے مگر ان کا کھلنڈرا پن ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔پالیسی اور منصوبہ بندی نام کی ہر آلائش سے ان کا دامن صاف ہے۔بعض وزراء کے رویے اذیت ناک ہو چکے ہیں۔انہیں سننا ممکن نہیں رہا۔ اور ابھی تو نو ماہ ہوئے ہیں۔ پہاڑ جیسے چار سال پڑے ہیں۔یہ کیسے کٹیں گے؟لوگ کہیں کفن چور کے باپ کی بلندی درجات کی دعائیں مانگنا نہ شروع کر دیں۔ عید کے بعد اپوزیشن احتجاج کرنے کو تیار ہے۔ حکومت کے نامہ اعمال میں کچھ ہوتا اور عمران خان نے امید کی کچھ مشعلیں روشن رکھی ہوتیں تو اپوزیشن نے سمٹ کر رہ جانا تھا۔ عوام خوش ہوں تو حکومت کا دست و بازو بن جاتے ہیں ، مایوس ہوں تو لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ مجھے ایسی ہی بے حسی پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ایک عام آدمی کے لیے اب یہ محض اقتدار کا کھیل ہے اور اس کھیل میں کوئی کھلاڑی اخلاقی برتری کا دعوی نہیں کر سکتا۔طریق واردات کے معمولی سے فرق کے ساتھ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اہل اقتدار کا روایتی کھلنڈرہ پن بھلے اس امکان کو حقارت سے نظر انداز کر دے لیکن مولانا کے لیے دس پندرہ ہزار لوگ اسلام آباد لا کر بٹھا دینا کوئی اتنا مشکل کام نہیں۔ اس صورت میں انجام کیا ہو گا؟اپوزیشن کے پیش نظر ہو گا عمران خان کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے اور حکومت چاہے گی اپوزیشن ناکام ہو جائے۔اہل سیاست میں سے تو کوئی ایسا نہیں جسے غم روزگار کے معنی معلوم ہوں ۔وہ تو وسائل کے بہتے دریا کے کنارے خیمہ زن ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا کیا بنے گا جنہیں ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے ناخنوں سے کنواں کھودنا پڑتا ہے؟ کیا کسی کو عام آدمی کا کچھ احساس ہے؟ بلکہ یوں کہیے کہ کیا عام آدمی کو خود بھی کچھ احساس ہے کہ اس کے ساتھ کیا واردات ہو رہی ہے؟ کیا ہم اس واردات کو سمجھیں گے یا ہماری ترک تازی کا میدان بس اتنا ہی ہے کہ ہم کسی کے حصے کا بے وقوف بن کر کسی دوسرے کے حصے کے بے وقوفوں سے الجھتے رہیں؟ عید کے بعد یہ معرکہ کس کے نام رہتا ہے ؟ سچ پوچھیے تو اب اس کی پرواہ نہیں۔ ابن الوقتوں کی کسی صف میں کھڑا ہونے سے بہتر ہے آدمی مارگلہ کے جنگل میں دور تک چلا جائے ، چشمے کا پانی پیے، جنگل کے سناٹوں سے باتیں کرے اور منیر نیازی کویاد کرلے: ’’ وہ بے حسی ہے مسلسل شکست ِ دل سے منیر کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا‘‘