معروف جرمن فلاسفر فیڈرک نشطے مقصد سے ہٹ جانے کو سب سے بڑی حماقت کہتے ہیں۔ آج اگر عوام کی وزیر اعظم عمران خان سے امیدیں مایوسی سے بڑھ کر ناامیدی میں بدل رہی ہیں تو اس کی وجہ بھی وزیر اعظم کا اپنے مقصد سے ہٹ جانا ہے۔ وزیر اعظم کا اقتدار حاصل کرنے کا مقصد کیا تھا؟وہ خود یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ دولت اور شہرت بہت حاصل کر چکے اب وہ عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کے لئے اقتدار چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوام کو بار بار یہ باور بھی کروایا کہ پاکستان کے سب سے بڑیے مسائل بے روزگاری، غربت، طبقاتی تعلیم اور صحت کی نامناسب سہولیات کا فقدان ہے وہ ان مسائل کا حل ملک سے کرپشن کا خاتمہ، غیر ملکی قرضوں سے نجات ، دیانت دار قیادت اور گڈ گورننس بتاتے رہے۔ یہاں تک کہا کہ کشکول لے کر ملک ملک ادارے ادارے گھومنے سے آپ کا وزیر اعظم خودکشی کو ترجیح دے گا۔ انہوں نے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے ایک کروڑ نوکریوں ، گھروں کو اپنی چھت کے خواب کو سچ کرنے کے لئے پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا مگر وزیر اعظم بننے کے بعد کیا کیا؟حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اچھے لیڈر کی خوبی یوٹرن بتائی اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے دوست ممالک کے سربراہوں کی ڈرائیونگ کرنے لگے۔ دعویٰ تو قرضوں کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینا تھا مگر اپنے دو سالہ اقتدار میں 7.8ارب ڈالر کا ملک کو مزید مقروض کر دیا. نواز شریف نے کل قومی آمدن کے 72فیصد قرض لیا تھا مگر خوددار وزیر اعظم کل جی ڈی پی کے 107فیصد زیادہ قرضے لے چکے ایک کروڑ نوکرکیاں دینے والی حکومت کے دور میں دو کروڑ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم جس کا نوٹس لیتے ہیں اس کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کے لئے وزیر اعظم اب تک 15بار نوٹس لے چکے اور ہر نوٹس کے بعد قیمت میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ۔یہاں تک کہ آٹا 35روپے سے 75روپے اور چینی 70روپے سے 105روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ نوعیت یہاں تک پہنچ چکی کہ اب لوگ نوٹس نہ لینے کی دعائیں کرتے ہیں ۔حکومت ہے کہ اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور کرنے اور اصلاح احوال کے بجائے تمام تر ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جانا چاہتی ہے ۔عوام کی چیخوں کو اپوزیشن یہ الزامات کے شور میں دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے دو سال تک عوام ہر جبر پر ناصر کاظمی کے بقول یہ التجا ہی کرتے رہے: تیری مجبوریاں درست مگر تونے وعدہ کیا تھا یاد تو کر دو سال تک لوگ مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے مہنگائی بے روزگاری کا جبر برداشت کرتے رہے تو اسی کی وجہ یہ تھی کہ قوم کے پاس احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہ تھا جو آپ کو پی ڈی ایم نے فراہم کیا ہے تو لوگ بھی ان آزمائے ہوئوں کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کے بعد کراچی کے عوام جلسے کی حکومت سے بے زاری کی خبر دے رہے ہیں، اگر حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی اقدام اٹھاتے ہوئے تو لوگ آزمائے ہوئے بقول وزیر اعظم ڈاکوئوں اور چوروں کے گرد جمع نہ ہوتے یہ وزیر اعظم کی کابینہ کے ارسطو دماغ مشیروں وزیروں کا ہی کمال ہے کہ عوام ماہر القادری کے اس شعر کے مصداق اس نہج پر پہنچ چکے: عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھائے جائے عمران خان جن کو چور ڈاکو کہتے ہیں لوگ ان سے فریب کھانے کے لئے اس لئے جمع ہو رہے ہیں کیونکہ وہ حکومت بالخصوص عمران خان سے ناامید ہوتے جا رہے ہیں یہ ناامیدی بے وجہ بھی نہیں اقتدار کے 26ماہ میں عمران خان اپنے مقصد سے مسلسل پیچھے ہٹے محسوس ہوتے ہیں۔ عمران خان کا مقصد عوام کی ترقی خوشحالی اور ملکی خود مختاری اور خود انحصاری کا تھا جس کے لئے کرپٹ عناصر کے بے لاگ اوربلا امتیاز احتساب کو مقصد کے حصول کے لئے محض ذریعے کے طور پر استعمال ہونا تھا مگر بظاہر عمران خان نے ذریعے کو ہی مقصد سمجھ لیاہے یا پھر بوکھلاہٹ میں منزل ہی بھول چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں کابینہ کے ایک اجلاس میں اپنی ہی کابینہ پر برس پڑے ۔برسنا ٹھیک بھی ہوتا اگر عوام کی مشکلات کے حل میں ناکامی پر برستے۔ مگر ان کو کابینہ سے شکایت یہ نہ تھی کہ حکومت مہنگائی بے روزگاری کے خاتمے میں ناکام کیوں ہے؟ بلکہ شکوہ یہ تھا کہ پنجاب کابینہ کا صرف ایک وزیر ہی اپوزیشن کے لتے لے رہ ہے باقی خاموشی سے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے بانی رکن محمود الرشید سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپوزیشن کے خلاف راگ میں شامل کیوں نہیں ہو رہے گویا وزیر اعظم تحریک انصاف کی حکومت میں جو لوگ عوام کو ریلیف دینے کی فکر میں ہیں ان کو بھی اپوزیشن کے خلاف بیانات کے اکھاڑے میں اتارنا چاہتے ہیں،وہ بھول رہے ہیں کہ جمہوری نظام میں حکومت کو اپنے ایجنڈے کو مقررہ مدت میں عمل کرنا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اپوزیشن پر الزام تراشیوں میں اپنے اقتدار کی نصف مدت گنوا چکی اپوزیشن پر الزام کا تھا بیڈ گورننس کا، اپنوں کو نوازنے کا، لوٹ مار کا اورمقصد تھا لوٹی دولت واپس لانے کا۔ آدھی مدت کو الزامات دوہرانے میں گزار دی کیا باقی آدھی بھی وعدے پورے کرنے کے بجائے الزامات لگانے میں گزارنا چاہتے ہیں ثابت نہ ہونے والے الزامات پر عوام کب تک یقین کریں گے اور پھر اپوزیشن کیا جوابی الزامات نہ لگائے گی جس کا مظاہرہ گوجرانوالہ اور کراچی جلسے میں کیا بھی گیا ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ہٹ دھرمی کا خمیازہ تحریک انصاف کے بجائے قومی اداروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان یہ فیصلہ کریں کہ وہ الزامات کی کی حکمت عملی سے اپنے ساتھ قومی اداروں کو بھی اپوزیشن کی توپوں کے دھانے پر لانا چاہتے ہیں یا پھر عوام کو ریلیف دے کر مہنگائی بے روزگاری کے خاتمہ کر کے اپوزیشن کو عوام کی تائید سے محروم کرنے کا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔