پاکستان اور امریکا کے مابین درمیانی سطح کے دفاعی مذاکرات کا دوسرا دور 13 سے 16 فروری تک واشنگٹن میں ہوا ہے۔ سیکرٹری دفاع کی سطح پر ہونے والی اِس بات چیت کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے آپشنز تلاش کرنا ہے۔ اِس ڈائیلاگ کا پہلا دور جنوری 2021 میں پاکستان میں ہوا تھا۔ ڈائیلاگ کے دوسرے دور کے لیے پاکستانی ٹیم کی سربراہی چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس) لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید نے کی ۔ اَمریکی وفد کی نمائندگی انڈر سیکرٹری آف ڈیفنس کے دفتر نے کی۔ اگرچہ اس دوسرے دور کے مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے ابھی تک کسی بھی طرف سے کوئی تفصیلی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں دو طرفہ تعاون کو توانائی، ماحولیات ، آب و ہوا ، تجارت اور سرمایہ کاری جیسے دیگر شعبوں تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں، امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولیٹ کی طرف سے جمعرات 16 فروری کو دیا گیا حالیہ بیان، جس میں پاکستان سے فوجی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں کے تناظر میں ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرنے کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ سفیر Chollet کے مطابق، دو طرفہ تعلقات ماضی میں "بنیادی طور پر یا صرف فوج کی سطح پر قائم کیے گئے" مگر اب تعاون کے دیگر شعبوں جیسے تجارت اور سرمایہ کاری، توانائی، ماحولیات اور آب و ہوا پر بھی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے جبکہ Chollet کا کہنا ہے کہ موجودہ کوششیں مجموعی تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کی جارہی ہیں"۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی تاریخ دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات میں ایک "آن اور آف" جیسی حالت کو ظاہر کرتی ہے جبکہ باہمی تعلقات کثیر جہتی رہے ہیں اور ان میں سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور دفاعی تعاون شامل ہے۔ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی اَفواج کے انخلاء نے پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی نزاکت کو ایک بار پھر ظاہر کر دیا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات بہت گہرے رہے ہیں جس نے وسیع تر دوطرفہ تعلقات کی حمایت کی ہے۔ نومبر 2011 میں پاک افغان سرحد پر واقع سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے ہیلی کاپٹروں کے حملے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تنزلی کا آغاز ہوا تھا۔ اِس حملے کے نتیجے میں 24 پاکستانی فوجی شہید ہوئے ۔ اس حملے کو بلا اشتعال، بلا امتیاز اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے، پاکستان نے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی کے لیے سرحدی گزرگاہ بند کر دی۔ اِس واقعے نے پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو ایک نیا دھچکا دیا جو مئی 2011 میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے یکطرفہ اَمریکی حملے کے بعد بحال ہونا شروع ہوئے تھے۔ پچھلی دہائی سے خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات محدود دائرہ کار کے ٹرانزیکشنل (Transactional) سطح کے رہے ہیں۔ جوزف بائیڈن کے امریکی صدر کے طور پر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ تاہم، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات افغانستان، بھارت اور چین کے عوامل کے گرد گھومنے لگے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان مفادات میں اِختلاف پیدا ہوا۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روس اور پاکستان میں سابقہ حکومت کی تبدیلی کے لیے نام نہاد سفارتی کیبل تنازعہ کو پاکستان امریکا تعلقات میں اضافی تناؤ کی اہم وجوہات قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان مفادات کی ہم آہنگی مشکل ہی سے پائی گئی ہے بلکہ مفادات کا اختلاف غالب رہا ہے۔ یہاں تک کہ دونوں ملک مفادات اور مسائل کی تشریح بھی مختلف کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے تحریک طالبان پاکستان ایک بڑی تشویش ہے جبکہ امریکا داعش کو سب سے سنگین خطرہ سمجھتا ہے۔ دونوں ممالک کے پالیسی ساز ایک دوسرے کے بارے میں منقسم رائے رکھتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے کے بارے میں مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے اور امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کا فیصلہ اَمریکہ کی جارحانہ اور دباؤ پر مبنی سفارتکاری کے نتیجے میں کیا۔ (اس سلسلے میں اَمریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کولن پاول کی صدر مشرف کو کی گئی فون کال کا حوالہ دیا جا سکتا ہے)۔ اِسلام آباد کو خدشہ تھا کہ اگر اس نے امریکی افواج کو رسائی دینے سے انکار کیا تو واشنگٹن خطے میں بھارت کے کردار کو فروغ دے سکتا ہے اور افغانستان میں اسکی موجودگی بڑھا سکتا ہے جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ گزشتہ نو مہینوں کے دوران پاکستانی اور امریکی حکام کے بالترتیب واشنگٹن اور اسلام آباد کے متعدد دوروں اور ان کے درمیان ہونے والی بات چیت اور مصروفیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک 75 سال پر محیط اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور جسے امریکی سفارت کار شولے کے اَلفاظ میں دوطرفہ تعلقات کی "ریفرمنگ" کے لیے کوششیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اَب جب پاکستان اَمریکہ سمیت بڑی طاقتوں سے یہ توقع کررہا ہے کہ وہ پاکستان کے جیو اکنامک محل وقوع سے فائدہ اٹھائیں، ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اَمریکہ پاکستان اور اپنے درمیان مفادات کی حقیقی صلاحیت اور مشترکات کو تلاش کرے۔ جبکہ پاکستان کو کسی بھی ایسی مہم جوئی سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جس کا نتیجہ پاکستان کے سٹریٹجک مفادات پر سمجھوتہ کی صورت میں نکلے اور پاکستان کسی بھی قسم کی سکیورٹی پر مبنی گروہی سیاست میں ملوث ہونے پر مجبور ہوجائے۔ نوٹ: ڈاکٹر طاہر اشرف بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ہیں اور عالمی سیاست کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭