ایک تو وہ ہیں کہ جن کے لیے سیاست ایک کھیل ہے۔ داو پیچ مار کر مخالفین کو پچھاڑنے کا فن انکے لیے معنی رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو ہی دیکھ لیں۔ وفاق میں تیسرے نمبر پر ہے لیکن اپنے ماضی کے رقیبوں کوبہلا پھسلا کر اقتدار میں لائی ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ وزیر اعظم کون ہے، بیساکھیوں کا محتاج ہے۔ اور ان میں سب سے بڑی بیساکھی خود پیپلز پارٹی ہے۔یا حیرت، وہ جو عمران خان کے استعفی اور فوری انتخابات کے پرجوش حامی تھے، آج وہ دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ انتخابات اپنے وقت یعی اگلے سال ہونگے۔ نیب اتفاق و اتحاد میں دراڑیں ڈل سکتی تھی تو اس راستے کے پتھر کو ہٹا دیا ہے۔ پچھلی حکومت کی انتخابی اصلاحات کو بھی منسوخ کردیا گیا ہے۔ مہنگائی ہے تو ہے، دیکھا جائیگا۔ عوام جانے میثاقی ٹولہ جانے کسی کو کیا۔ ادارے اپنی حدود میں رہیں تو ہی ملک آگے بڑھیگا۔ عمران خان ایوان اقتدار سے نکلا ہے تو ایوان زیریں بھی رقیبوں کے حوالے کردیا ہے۔ کیا اسے پارلیمان سے دلچسپی اقتدار کی حد تک ہے؟ بجٹ تو حکومت دے گی ہی۔ اسکے فائدے میں بھی یہی ہے کہ اس کے بعد بھلے انتخابات ہوں تو ہوجائیں۔ اب تعداد جب معنی ہی نہیں رکھتی تو ڈر کس بات کا۔ دنیا نے دیکھا نہیں کہ جب تحریک انصاف نے ٹک کر حکومت کرنا ہی شروع کیا تھا کہ اس کے اپنے پتے ہوا دینے لگ گئے۔ اس وقت بھی اگر پارلیمان میں بیٹھ جائے تو بقول شخصے وختا ڈال دے۔ سیاست نہیں جہاد کر رہی ہے۔ نصب العین آزادی ہے، راستہ انصاف کا اپنایا ہے، منزل ہے اقتدار۔ چوروں کے خلاف تھی، کسی ایک سے نہیں اگلوا سکی۔ سب کے سب باہر آکر اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں۔ نقب لگائی اور تحریک انصاف کاجھگا صاف کر کے رکھ دیا۔ اب پھرتے رہیں بنوں میں مار ے مارے۔ دیتے پھریں دہائیاں۔ پولیس کو کیا سدھارا، اس نے مظاہرین کی تشریفیں لال کر ڈالیں۔ موروثی سیاست کی حامی پارٹیاں اقتدار میں ہیں توصدیوں پرانے نظام کو دوبارہ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے۔ تبدیلی کی بات ان کے لیے سوہان روح ہے۔ انکے جاہ وجلا ل کو ملک کے قیام کے ساتھ سے ہی خطرہ لا حق ہوگیا تھا کہ یہ ایک جمہوری جدوجہد سے بنا تھا اور جمہوریت اس کا مستقبل تھی۔ لیکن کیا ہوا؟امریکہ جیسی جمہوریت کو بھی چونا لگا دیا۔ اسی کے کندھے پہ سوار رہتی اور جمہوریت کی جڑیں کاٹتی آئی ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب دنیا کی واحد سپر پاور نے دنیا میں جمہوریت پھیلانے اور آمریت کو دبانے کا ٹھیکہ لیے ہوئے تھا، انہوں نے عالمی مالیاتی نظام سے قرضے لیے اور انکے زور پر اپنی جڑیں ایوان اقتدار میں مضبوط کیں۔ اقتدار کیلیے حریف پارٹیوں میں رسہ کشی بڑھی۔ امریکہ کی جمہوری توقعات پر پورا اتر نہ پائیں تو انہیں دس سال کے لیے سیاست سے ہی باہر کردیاگیا۔اوبا مہ دور میں امداد لی لیکن سویلین بالادستی میں مشکلات کا بہانہ بنا کرافغانستان سے امریکی انخلا کے سلسلے میں وعدوں، معاہدوں سے بھی مکر گئیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں دونوں سیاست سے باہر ہوگئیں۔ عمران خان کا احتساب جھیلا۔ خان کی بدقسمتی کہ جس دن عالمی سیاست میں بھونچال آنا تھا، یو کرین پر روس نے دھاوا بول کو یورپ کے دفاع کو تہہ بالا کرنا تھا، وہ اس دن ماسکو میں سستے تیل اور گندم کی سپلائی کی یقین دہانی حاصل کررہے تھے۔ لیکن ٹھہریں! کیا پاکستان میں آنے والا سیاسی بھونچال امریکی سازش کا نتیجہ ہے؟ ہمارے مقتدر ادارے ایسا نہیں سمجھتے، عدالت کو شبہ ہے۔ عمران خان پر جو لوگ یقین کرنا چاہیں، وہ اپنے طرز عمل میں آزاد ہیں۔ اگر مریکہ پر انگلی کھڑی رکھنا چاہتے ہیں تو اس سے نہ تو امریکہ کو کوئی فرق پڑنے والا ہے اور نہ ہی حکومت وقت کو۔ ہر پارٹی کو اپنا بیانیہ گھڑنے اور اس کی ترویج کی اجازت ہے۔ حکومتی ٹولہ مخالفین کے طرز سیاست کو فتنہ سمجھتا ہے اور اس نے عمران خان کے احتجاج کو مناسب اقدامات سے دبایا ہے۔ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، اگر اس معاملے نے طے ہونا ہوتا تو مخالفین کے بیانیے ایک سو اسی کے زاویے پر نہ ہوتے۔ امریکہ کا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ بد سے زیادہ بدنام ہے۔ہوسکتا ہے کہ واقعی ایسا کچھ نہ ہوا ہو۔ ایک امریکی سفارتکار کے مخلصانہ مشورے کو ڈھال بنا کر وہ کر گزرے ہوں جو مقتدر حلقے میں طے تھا۔ ڈوریں کہا ں سے ہلیں ، ہم تو بکل میں چور کا ہی رونا روئیں گے نا۔ ویسے بھی جہاں معاملات سٹریٹجک ہوجائیں تو سیاست کی کہاں چلتی ہے۔ جہاں تک انتخابات کی بات ہے تو اصلاحات کے بغیر ان سے کوئی خیر کا پہلو نہیں نکلنے والا۔ پچھلے والے نتائج دوبارہ سامنے آگئے تو پھر کیا ہوگا؟ نفرتیں اور کدورتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ مطلب، اگر موجودہ پارلیمان سے کام نہیں لے سکتے تو اگلی والی سے بھی توقعات رکھنا عبث ہے۔ ملک کو اس وقت جس نہج پر ڈالیں گے، سیاسی پارٹیاں اسی پر چلاتی رہیں گی۔ اس وقت جو ہونا ہے وہ نئے قومی بیانیے کی روشنی میں آئینی ، انتظامی اور معاشی اصلاحات لانا ہے۔ جو میثاقی پارٹیوں کو چاہیے تھا مل گیا، نیب اور انتخابی اصلاحات سے مسئلہ تھا، اب انکا یہ مسئلہ بھی حل ہوچکا ہے۔ عمران خان نے بھی ساڑھے تین سال حکومت کر لی، جو تیر مارنا تھا مارلیا۔ انہیں پتہ ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ مل بیٹھ کر راستہ نکال لیں، انتخابات کرائیں اور ملک نئی سمت پکڑ لے گا۔ چین کے بغیر ہمارا گزارا نہیں۔ امریکہ ہمارا کچھ بھی لگ سکتا ہے لیکن دوست ہمارا ہمالیہ کے اس پار ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کو اس بات سے اختلاف نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف بیجنگ سے سرمایہ کاری کی دہائیاں دیتے نظر آرہے ہیں اور اس حوالے سے چین کے ترقیاتی ماڈل کو اپنا نے کا عندیہ دے رہے ہیں، سی پیک منصوبوں، جو کہ پچھلی حکومت کے دور میں منجمد رہے تھے، ان میں پیشرفت ہی نہیں بلکہ ترکی کی شمولیت کی با ت کر رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے امریکہ کی تو عمران اسکی تواضع گالم گلوچ سے کر رہے ہیں ۔خارجہ معاملات پیپلز پارٹی دیکھ رہی ہے۔ اس میں وہ صلاحیت ہے کہ بیک وقت امریکہ کو بھی راضی رکھے گی اور چین و روس کو بھی سنبھال لے گی۔ ' صلح کل ' فلسفے کی حامل اس پارٹی کی کاریگری کا اندازہ اسکے اس نعرے سے لگایا جا سکتا ہے : اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست اور سوشلزم ہماری معیشت۔ بظاہر ایک دوسرے کی ضد ان نظریات کا ملغوبہ آئین پاکستان ،جسکی یہ اپنے آ پ کو خالق کہتی ہے، اب مکمل طور پر بحال ہے۔ جس پارٹی کا زور توڑنے کے لیے پنجاب کو تقسیم کرنے کی تحریک چلائی تھی، آج اسی پارٹی کو اس نے سر آنکھوں پر بٹھایا ہوا ہے۔