وہ کہتے تھے ہم دو نہیں ایک پاکستان بنائیں گے۔ انہوں نے یہ کر دکھایا۔ کم و بیش پندرہ برس سے بڑے قومی اخبارات میں کالم لکھ رہی ہوں۔ یوں سمجھیں گزشتہ پندرہ برس سے غریب شہر کی حالت زار اور اہل اختیار و اہل اقتدار کی بے حسی پر ماتم جاری ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی ناکافی سہولتوں کے بارے میں کئی بار لکھا۔ کئی بار یہ جملہ قلم سے نکلا کہ یہاں غریب‘ مفت کی پیناڈول کی گولی کے لیے بھی سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتا ہے۔ مگر صاحب‘ یہ گئے زمانے کی بات تھی۔ اب تو حالت یہ ہے کہ شہر بھر میں کیا غریب تو کیا امیر۔ کسی کو پیناڈو کی گولی آسانی سے دستیاب نہیں۔ایک ہفتہ پہلے ہماری ایک عزیرہ جو رائے ونڈ روڈ پر بنے فارم ہائوس میں رہتی ہیں‘ اچانک رات کو ان کی طبیعت بگڑ گئی‘ فشار خون بلندیوں کی بھی حدوں سے باہر نکلنے لگا۔ ابتدا ئی طبی امداد کے لیے رات کے 2 بجے گھر والے قریب ہی ایک مہنگے ہسپتال کی ایمرجنسی میں میں لے گئے۔ اب مہنگے ہسپتال میں پیناڈول نایاب تھی‘ کوشش کے باوجود نہ ملی‘ طبیعت کچھل سنبھل گئی تو گھر واپس آ کر دوائوں کے ڈبے میں دیکھا، ایک دو گولیاں موجود تھیں۔ اب آپ خود ہی بتائیں‘ وہ جو پاکستان کو دو سے ایک بنانے کا دعویٰ کرتے تھے انہوں نے یہ کام کر دکھایا کہ نہیں۔کورونا قابو ہوا تو ڈینگی ایک آفت کی طرح پھیل گیا۔ بروقت اس کو کنٹرول کرنے کے انتظامات ان کے بس کا روگ ہی نہیں تھا۔ انہیں تو شہر بھر میں پڑے کوڑے کے ڈھیر دکھائی نہیں دیتے کہ اس کا سدباب کر سکیں تو پھر ایک نظر نہ آنے والا مچھر ان کو کہاں دکھائی دینا تھا۔ یوں بھی مصیبت آنے سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنا ان حکومتوں کا شیوہ ہے‘ جہاں طرز حکمرانی کچھ اقدار اور اطوار کی پابند ہو۔ کوئی بوجھ آپ اپنے کندھوں پر لینے کے لیے تیار ہوں۔ پالیسیوں اور ان پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے والی شخصیات میں تسلسل ۔یہاں اور کچھ نہیں سو جھتا تو عہدوں کی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جاتی ہے اور اس طرز حکمرانی پر انہیں فخر بھی محسوس ہوتا ہے۔ ان کے آس‘ پاس سارے آئینے انہیں دنیا کا بہترین حکمران دکھاتے ہیں۔ دائرہ در دائرہ‘ خوشامدیوں کی قطاریں ہیں جو ایک سے ایک قصیدہ بادشاہ وقت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ بھاگ لگے رہن کا شور اتنا ہے کہ شہنشاہی سماعتوں میں عوام کی دہائی نہیں پہنچتی۔مہنگائی کے پے در پے تھپیڑوں نے لوگوں کا جینا حقیقت میں مشکل بنا ڈالا اور جو پہلے ہی ہلکی جیب اور بھاری اخرجات کے ساتھ زندگی سے نبرد آزما تھے‘ ان کے لیے زندگی واقعی عذاب بن گئی ہے۔ادھر شہنشاہ وقت اپنے کارندوں کو جمع کر کے انہیں حکم دیتے ہیں کہ جائو جا کر عوام کو خوش خبری سنائو کہ تمہاری آسودگی کے لیے حکومت نے بہت انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ افسوس کہ تمہیں اس کی خبر نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خوش فہمی کے مائونٹ ایورسٹ پر بیٹھا ہوا کسی ریاست کا بادشاہ رعایا کے مسائل حل کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کر رہا ہے۔ امور ریاست کو چلانے کے لیے یہ اکیسویں صدی کے طور طریقے نہیں لگتے۔ جب ریاست کے حقوق و فرائض پوری طرح ڈیفائن ہو چکے ہیں‘ ریاست ذمہ دار ہے کہ اپنے شہریوں کی جان، مال‘ صحت اور تعلیم کے لیے اقدامات کرے۔ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اگر ریاست اپنا کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ریاست کے وجود پر سوال اٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے کابینہ کی کور کمیٹی کا اجلاس بلا کریہ الفاظ ادا کئے: عوام کو جا کر بتائیں کہ ان کے لیے حکومت نے کیا کیا اقدامات کئے ہیں۔ یہ اپنی نااہلی‘ اپنی شکست کا اعلان نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر حکومت نے عوام دوست کام کئے ہیں‘ مہگنائی کم کی ہے۔ سبزیاں دالیں‘ گھی ،نمک ،مرچ ہلدی‘ چینی کے نرخ کنٹرول میں ہیں اور اتنے ہیں کہ ایک غریب خاندان کی قوت خرید میں رہیں اور وہ دو وقت کی روٹی سالن‘ با سہولت افورڈ کرتے رہیں تو عالی جاہ! پھر آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کو اس زحمت کی ضرورت نہیں کہ غریب شہر کو جا کر بتائیں کہ خاطر جمع رکھو‘ تمہارے لیے حکومت وقت تبدیلی کا انقلاب لا رہی ہے۔مگر یہاں کہانی اس کے برعکس ہے۔ بجلی‘ پٹرول‘ ڈیزل‘ گیس سب کی قیمتیں تواتر سے آئے روز بڑھ رہی ہیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر دی گئی سبسڈی محض نمائشی اور فائل ورک ہے۔ کہیں حکومت کے ریٹ پر سستی اشیائے ضروریہ ہیں بھی تو فقط سفید پوشوں کی سفید پوشی کا مذاق۔ ناقص گھی‘ کائی زدہ آٹا تو انسانوں کے کھانے کے قابل نہیں۔وزیراعظم صاحب کو نہ جانے کس نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت کے اچھے کام عوام تک پہنچ نہیں رہے‘ اس لیے انہیں بنفس نفیس جا کر بتانا ہوگا۔ بھوکے کو روٹی کے جھوٹے خواب اور پیاسے کو پانی کے سراب سے بہلانا ہی ان کے نزدیک طرز حکمرانی ہے۔ لگتا ہے حالات کی سمت درست کرنے کا وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ چلئے مان لیں کہ بگاڑ ان کی آن میں درست نہیں ہوتا مگر جناب یہاں تو بنیاد کی پہلی اینٹ ہی درست نہیں رکھی گئی۔ المیہ تو یہ بھی ہوا کہ گزشتہ حکومت کا جو کچھ اچھا اور بہترین تھاآپ اسے بھی سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ڈینگی کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ آپ جنہیں طنز سے ڈینگی برادران کہتے تھے ان کے دور میں تھرمامیٹر اور پیناڈول کا ایسا کال نہیں تھا۔ سڑکوں سے کوڑا اٹھایا جاتا‘ سڑکوں اور راستوں کے کنارے پودے پانی نہ ملنے سے سوکھ چکے ہیں۔ کیا کوڑا اٹھانے اور پودوں کو پانی دینے کے لیے بھی آپ کو آئی ایم ایف کی مدد درکار تھی۔ جو اچھی بری تصویر پہلے تھی آپ کے طرز حکمرانی نے اس کے خدو خال بھی بگاڑ دیئے ہیں۔ آپ کے طرز حکمرانی کے کیا کہنے!