گزشتہ روز سینئر صحافی اشرف شریف کا کالم ’’سفر ڈیرہ اسماعیل خان کا‘‘ پڑھا تو مجھے یاد آیا کہ میری زندگی کا بہت سا حصہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سفر میں گزرا ہے۔ جناب اشرف شریف نے راستے کی جن مشکلات کا ذکر کیا ان مشکلات سے میں خود گزرتا آرہا ہوں اس لیے ان کی بات مجھے اپنی بات لگی اور میں نے اس کالم کو دو مرتبہ پڑھا۔ اپنے کالم کا آغاز انہوں نے اس طرح کیا کہ ’’سفر کیلئے ہمیشہ شوق سے آمادہ رہتا ہوں۔ اس بار ڈیرہ اسماعیل خان منزل تھی۔ نئے سفر معلومات اور تجربات دیتے ہیں اور زمینوں کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں، موسم اور ذائقوں سے آشنا کرتے ہیں، نئے کردار اور انوکھی داستانوں سے ملاتے ہیں۔ برادرم ملک سلمان اور عقیل شریف ہمراہ تھے‘‘۔ ظاہر ہے اشرف شریف سفر کے شوق کیلئے آمادہ رہتے ہیں۔ مجھے اُن کے کالم نے ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ، ثقافت اور محرومیوں کی داستان لکھنے پر آمادہ کیا۔ آج افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر ڈی آئی خان کے لوگ پریشان ہیں کہ آج سے نہیں بلکہ ضیاء الحق کے جہاد افغانستان کے بعد سے ڈیرہ اسماعیل خان کی حالت زبوں سے زبوں تر ہو چکی ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ وسیب کے اضلاع ٹانک ، ڈی آئی خان تاریخی ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے کبھی خیبرپختونخواہ کا حصہ نہیں رہے ۔ 9 نومبر 1901ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے صوبہ پشاور کو صوبہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کی شکل میں بحال کیا تو وسیب کے اضلاع بھی ً اس میں شامل کر دیئے ۔ جس کے خلاف مسلسل احتجاج ہوتا رہا ، ریاست ٹانک کے نواب نے مزاحمت کی ، اس کو گرفتار کر کے لاہور کی جیل میں ڈال دیا گیا اور وہیں پر اس کی وفات ہوئی ۔ احتجاج کا وہی سلسلہ آج بھی جاری ہے اور 9 نومبر کو ٹانک ، ڈی آئی خان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے ۔ انگریز نے اپنی ضرورتوں کے تحت صوبائی حد بندیاں کیں ، انگریز نے سندھ کو بھی بمبئے کا حصہ بنایا تھا ، جس کے خلاف قائد اعظم محمد علی جناح نے سپریم کورٹ میں درخواست دی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تاریخی ،ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے سندھ کا بمبئے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی سندھ کبھی بمبئے کا حصہ رہا ہے اور لوگوں کی رضا مندی کے بغیر اسے آمرانہ آرڈیننس کے ذریعے بمبئے میں شامل کیا گیا ہے ۔ یہ مقدمہ محمد علی جناح کے حق میں ہوا اور سندھ کی اصل حیثیت بحال ہوئی ، یہی مقدمہ وسیب کا ہے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پڑھے لکھے دوست عباس سیال آسٹریلیا میں مقیم ہیں ،حال ہی میں ان کی کتاب ’’ دیرہ مُکھ سرائیکستان ‘‘ شائع ہوئی، صفحہ 31 پر ان کا ایک مضمون ’’دیرہ اسماعیل خان مرحوم ‘‘ کے نام سے ہے ، اس میں ڈیرہ اسماعیل خان مرحوم اپنا تعارف اس طرح کراتا ہے ۔ پورا نام:ڈیرہ اسماعیل خان ۔ قوم: سرائیکی۔ سکنہ : سرائیکی وسیب ۔ تاریخ پیدائش : 1469ء ۔ تاریخ اغواء : 9 نومبر1901 ئ۔ تاریخ یتیمی:1947ء ۔ تاریخ نزع:1987ء ۔ تاریخ وفات2009: ئ۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ اس میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ تاریخی حوالے بھی موجود ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کو قیام پاکستان کے وقت ریفرنڈم میں قائد اعظم اور پاکستان کی بھرپور حمایت کرنے کی سزا کے ساتھ جرم ضعیفی کی سزا بھی ملتی آرہی ہے۔ کتاب میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کیا کبھی حقیقی پاکستانیوں اور پاکستان سے حقیقی محبت کرنے والوں کو خدمات کا صلہ ملے گا؟ ڈیرہ اسماعیل خان کا تعارف کراتے ہوئے عباس سیال لکھتے ہیں کہ میرا نام ڈیرہ اسماعیل خان ہے۔میں بلوچ سردار ملک سہراب خان کا مٹتا ہوا وہی تاریخی شہرہوں جسے اس نے آج سے پانچ سو سال قبل بڑے چائو اورارمانوں کے ساتھ سندھ کنارے آباد کیا تھا ۔ میں اپنے وقتوں کا نہ صرف پُرامن اور خوشحال شہر ہوا کرتا تھا بلکہ اپنی سرسبزی ، ہریالی اور پھولوں کی فراوانی کے باعث ’’ پُھلاں دا سہرا ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ وقت کا بے رحم پہیہ ایک مخصوص انداز میں زمین کو روندتا آگے سرکتا چلاگیا۔ میری جوان نظروں نے تہذیب و تمدن سے عاری جنگلی ، اجڈ خانہ بدوشوں، سفاک تاتاریوں اور درانیوںکے لائو لشکر دیکھے ۔ میری دوررس نگاہوںنے گھوڑوںکی سموں سے اڑنے والی چنگاریوں سے انسانی آبادیوں کو خاکسترہوتے دیکھا ۔میں افغانی لٹیروں کی گزرگاہ بنا، سکھوں نے میرا حسن لوٹا، سندھ کی بے رحم طوفانی موجوں نے مجھے صفحہ ہستی سے مٹا نے کی ناکام کوششیں کیں لیکن میں ہر بار لٹ کر اور دریا برد ہو کر دنیا کے سامنے ابھرتا رہا یہاں تک کہ9 نومبر 1901 ء کی منحوس گھڑی آ ن پہنچی جب سات سمندرکھنگال کر یہاں پہنچی فر نگی قوم نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خا طر میرے وجود کو ایک غیر فطری تقسیم کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔مجھے صوبہ ملتان سے جدا کر کے تخت پشور کا قیدی بنا دیا گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان جسے تاریخی کتابوں میں ڈیرہ پھلاں دا سہرا کہا گیا اور جو کہ کسی وقت ترقی یافتہ شہر تھا ، آج محرومی کا شکار ہے ، جغرافیائی لحاظ سے ڈی آئی خان ٹانک کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، سی پیک راہداری ڈی آئی خان کے ساتھ گزرنی تھی ، جسے بنوں کے قریب کر دیا گیا ہے اور سی پیک منصوبے کے تحت بہت بڑا صنعتی زون ڈی آئی خان میں بننا تھا ، جو کہ اب ظاہر ہے بنوں کے قریب بنے گا ۔ ڈی آئی خان کو پانی کا پورا حصہ نہیں مل سکا ، حالانکہ ڈی آئی خان دریائے سندھ کے کنارے موجود ہے اور اس سرزمین کو سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے مگر پانی کا پورا حصہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ سر زمین آج بھی پیاسی ہے ۔ خیبرپختونخواہ کے سیاسی رہنماؤں سینیٹر وقار و دیگر نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ، وہ اور ان کے والد گلزار سینیٹر بننے کیلئے کروڑوں خرچ کرتے رہے ، یہی رقم اگر وہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی یا صوبہ بنوانے پر خرچ کرتے تو آج وسیب کو ایک سینیٹر نہیں بلکہ سینیٹ میں پورا حصہ مل گیا ہوتا ۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کا جاگیردار اور سرمایہ دار اپنی سوچ تبدیل کرے ورنہ آنے والا مورخ ان کو معاف نہیں کرے گا ۔