ریاستوں کے درمیان تعلقات جذبات نہیں مفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے استثنیٰ نہیں۔ پاکستان کیونکہ دو قومی نظریے اور مذہبی بنیادوں پر معرض وجود میں آیا اس لیے قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کی قیادت نے عالمی برادری سے تعلقات کے تعین میں اس پہلو کو اہمیت بھی دی۔سوویت یونین کی طرف سے پاکستانی وزیر اعظم کو پہلے دورے کی دعوت ملنے کے باوجود پاکستان نے اہل کتاب امریکہ کی خوشنودی کے لئے سوویت یونین کی طرف سے خیر سگالی کا بڑھنے والا ہاتھ جھٹک دیا۔ جس کا فائدہ بلا شبہ بھارت نے اٹھایا۔پاکستان سوویت یونین کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے امریکی اتحادوں میں شمولیت اختیار کرتا گیا۔بدلے میں پاکستان کو امریکی امداد ملتی رہی مگر یہ امداد ہمیشہ امریکی مفادات کے تحفظ سے مشروط رہی اور جب بھی پاکستان سے کہیں چوک ہوئی پاکستان پر پریسلر اور برائون ترمیم کی صورت میں پابندیاں لگتی رہیں۔ پابندیوں اور امداد کی بحالی کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ پاکستان نے امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنانے کے لئے افغان جہاد میں پاکستان کی سرزمین اور عسکری وسائل تک فراہم کرنے تک سے گریز نہ کیا۔ پاکستان اور امریکہ کے غیر مشروط تعلقات کا یہ سلسلہ ساڑھے چھ دھائیوں تک محیط ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں پہلا شدید اور ناقابل برداشت جھٹکا 2011ء میں اس وقت لگا جب طاقت کے خمار میں مست امریکہ نے اسامہ بن لادن کو ٹارگٹ کرنے کے لئے پاکستان کی فضائی حدود کے تقدس کو پامال کیا۔ امریکی ہیلی کاپٹروں کا پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر حملہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور پاکستان نے آہستہ آہستہ امریکہ پر انحصار کم کرنا شروع کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب چین عالمی نقشہ پر ایک اہم اقتصادی قوت بن کر ابھر رہا تھا۔پاکستان کے امریکہ کے تسلط سے نکلنے میں چین بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جس طرح ساٹھ کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کام کیا تھا بالکل اسی طرح 2020ء کی دہائی میں چین پاکستان کے خطہ کے ممالک کے ساتھ باہمی شراکت داری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے یہ چین کی کوششوں کا ہی ثمر ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان برف پگھلنا شروع ہوئی ہے پاکستان اور روس کے تعلقات خطہ میں ڈرامائی سٹریٹجک تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے بہتر ہونا شروع ہوئے ۔ اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارت کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ اور بھارت کے ساتھ جوہری تعاون کو ترجیح دینا تھی۔ امریکہ کی افغانستان میں لاحاصل جنگ اور امریکی ترجیحات میں تبدیلی کے بعد پاکستان نے بھی امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات قائم رکھتے ہوئے خطہ کے دیگر ممالک بالخصوص روس کے ساتھ تعلقات بارے اپنی پالیسی ازسرنو ترتیب دینا شروع کی۔ دوسری طرف امریکہ کے روس پرکریما کے معاملے پابندیاں لگانے کے بعد روس نے بھی چین کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ روس اور چین نے امریکہ اور یورپ کے بجائے خطہ کے ممالک سے سٹرٹیجک تعلقات پر توجہ دی تو چین کے ون روڑاینڈ ون بیلٹ انیشیٹو کے تحت سی پیک کی صورت میں پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت روس کو پاکستان کے بھی قریب لے آئی۔ اس کے علاوہ افغانستان میں پائیدار امن کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف کو بھی چین کے بعد روس نے سب سے پہلے سمجھا اورامن عمل میں مشترکہ کوشش کا آغاز ہوا۔ روس کیونکہ ماضی میں بھارت کا اتحادی رہا ہے اس لئے روس نے پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے پر سخت پابندی لگا رکھی تھی۔ بھارت کے روس کے مقابلے میں امریکہ کو ترجیع دینے اور امریکی خوشنودی کے لیے چین کیخلاف امریکہ کے سٹرٹیجک پارٹنر بنے کے فیصلے کے بعد روس نے اپنی اس پالیسی پر 2014ء میں نظرثانی شروع کی اور پاکستان سے دفاعی تعاون پر آمادگی ظاہر کی۔ 2015ء میں روس نے پاکستان کو M 135 اٹیک ہیلی کاپٹر فروخت کرنیکا معاہدہ کیا۔ اس کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان معاشی اور عسکری تعاون کے در کھلنا شروع ہوئے۔پاکستان اور روس کے درمیان T 90ٹینک کی خریداری کی بات بھی چل رہی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت روس کے دورے کر چکی ہے۔ دسمبر 2019ء میں روس کے وزیر تجارت نے 64رکنی وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا جس میں دونوں ممالک نے باہمی تجارتی اور عسکری تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے 9ارب ڈالر کا دفاعی سازو سامان خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی پاکستان روس سے جنگی طیاروں کے علاوہ درمیانی اور طویل فاصلے کا ڈیفنس سسٹم خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ روس پاکستان کو سٹیل ملز کی بحالی کے لئے ایک ارب ڈالر کے مالی تعاون کے ساتھ تکینیکی معاونت بھی فراہم کرنے پر بھی آمادہ ہے۔ اس کے علاوہ روس نارتھ سائوتھ پائپ لائن منصوبے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ دنوں ممالک کے درمیان بڑھتے تعاون اور مشترکہ مفادات کا ہی نتیجہ ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں چیئرمین چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے روس میں وار گیمز کی احتتامی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان اور صدر پیوٹن بھی سائڈ لائن ملاقات کر چکے ہیں اس لحاظ سے روس کے وزیر خارجہ سر گئی لاروف کی گزشتہ روز پاکستان آمد سے پاکستان کے لئے تعمیر و ترقی کے نئے در کھلنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ابھی بہت محنت اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ روس کے وزیر خارجہ پاکستان کے دو روزہ دورے سے پہلے بھارت کا دورہ کر چکے ہیں روس چین اور پاکستان نہ صرف افغانستان میں پائیدار امن کے لئے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں بلکہ خطہ کے دوسرے ممالک سے تعلقات میں بہتری اور باہمی تجارت اور مشترکہ ترقی کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا باعث بنے گا بلکہ پاکستان کے جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلقات کی سمت متعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔