امریکی نیشنل سیکیورٹی سٹریٹجی ـ( 2022 )کے مطابق امریکہ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اوراپنا فطری اتحادی قرار دیتا ہے۔چین کودشمن نمبر ایک اور ایران کو ایک ’چھوٹی بدمعاش ریاست ‘سمجھتا ہے۔ رپورٹ میں دو پرانے امریکی اتحادیوں یعنی سعودی عرب اور پاکستان کا مگر ذکر تک نہیںہے۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد امریکی پالیسی ساز ’ٹرومین ڈاکٹرائن ‘ کی روح کے مطابق نو آبادیات کو آزاد کئے جانے کے حق میں تھے۔تاہم اس دور میں کمیونزم کے خلاف یورپی محاذہی امریکی توجہ کااصل مرکز تھا۔’مارشل پلان ‘کے تحت تباہ حال مغربی یورپین ممالک کی تعمیرِ نوہی امریکیوں کی اولین ترجیح تھی۔ چنانچہ انہیںہندوستان کی آزادی سے آگے تقسیمِ ہند میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد برٹش انڈیا کے اثاثوں میں سے متعین حصے سے محروم رکھی گئی نوزائیدہ مملکت نے خود کو دو اطراف سے اپنی سلامتی کو لاحق خطرات میں گھرے ہوئے پایا تو مغرب بالخصوص امریکہ کی طرف مدد کے لئے دیکھنے کے سوا کوئی راستہ نہ سوجھا۔ امریکہ مگر پاکستان کے ساتھ’ خصوصی تعاون ‘میں سنجیدگی نہیں دکھا رہا تھا ۔ قائدِ اعظم نے مگر لائف میگزین کی بورک وائٹ کو انٹرویو میں بتایا، ’امریکہ کو پاکستان سے تعاون کی ضرورت ، پاکستان کو امریکی دوستی کی ضرورت سے کہیں بڑھ کر ہوگی‘۔ لیاقت علی خان حکومت کی تمام ترکوششوں کے باوجودمگر امریکی ابتدائی برسوں میں بھارت کو ہی ’تحریکِ آزادی کا جائز ثمر اور اپنا فطری اتحادی سمجھتے رہے۔ پاکستان اُن کے نزدیک متروک (Atavistic) مذہبی جذبات کا نتیجہ تھا کہ جس کے قیام کی فکری اساس امریکی افکار سے متصادم تھی ۔ تاہم پچاس کی دہائی میں دوعوامل کی بناء پر پاک امریکہ تعلقات میں جوہری تبدیلی آنے لگی۔ایک طرف روس کے ساتھ باقاعدہ سرد جنگ کے دور کا آغاز ہو ا تو دوسری جانب جنرل ایوب خان نے فوج کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے عہدہ سنبھال لیا۔کچھ ہی عرصے بعد اسکندر مرزا صدر بن گئے۔فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ امریکہ کی گود میںچڑھنے کے لئے سویلین یا عسکری عہدیداروں میں سے کون ایک دوسرے سے بڑھ کر بے چین رہا۔عشروں قبل پاکستانی حکمرانوں کی بھر پورکو ششوں کے نتیجے میں شروع ہونے والی امریکی امدادکے نتیجے میں پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر رہی ہے۔ ’امریکی کلائنٹ سٹیٹ‘ کا مقام ہم پر کسی نے ٹھونسا نہیں، ہم نے خوداصرار کر کے لیا تھا۔ گزرتے عشروں پاک امریکہ تعلقات میں کبھی گرم جوشی آجاتی تو کبھی امریکی یوں بے رُخی کے ساتھ منہ موڑ لیتے، جیسے جانتے ہی نہ ہوں۔ ہمیں شکوہ ہے کہ 1948ء اور1965ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران امریکیوں نے ہماری فوجی امداد روک دی تھی۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ امریکیوں کے ساتھ چینیوں کو ہم نے متعارف کروایا جبکہ اس کے بدلے میں ہم ساتویں بیڑے کی راہ تکتے رہے۔ہمیں گلہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نا صرف یہ کہ ہمیں تنہا چھوڑ کر چلا گیا بلکہ دوسری مرتبہ دہشت گردی کی جنگ میں کلیدی اتحادی کی حیثیت میںہماری قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے الٹا ہمارے خلاف ہی محاذ کھول کر بیٹھ گیا۔ ہمیں ہمیشہ سے شکوہ رہا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کو محض دہشت گردی اور خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے اور بائیس کروڑ کی آبادی والی ایٹمی طاقت کو اس کا’ جائز مقام ‘نہیں دیا جاتا۔دوسری طرف آج سے نہیں ،ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں ہی امریکیوں کو احساس ہو گیا تھا کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو فوجی امداد دینا ایک سنگین غلطی تھی۔عشروں بعدسال 1999ء میں امریکہ نے بھارت کو اپنا باقاعدہ تزویراتی اتحادی قرار دے کر اپنی اِس تاریخی غلطی کو درست کرلیا۔چنا نچہ آج بھارت میں اقلیتوں کی حالتِ زار، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے باوجود امریکہ اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور خطے میں اپنا فطری اتحادی سمجھتا ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی خطے میں بھارت کا کردار تسلیم کرے۔ یوں تو پاک امریکہ تعلقات گذشتہ کئی برسوں سے ہی بدگمانی اور سرد مہری کا شکار رہے ہیں، تاہم افغانستان سے حالیہ شرمناک پسپائی کے بعدامریکیوں کی پاکستان سے ناراضگی شدت اختیار کر گئی۔ ستر برس قبل امریکہ نوزائیدہ مملکت کو اہمیت دینے پر تیار نہیں تھا ۔وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو روسی دورے کی دعوت ملتے ہی مگربے چین ہو کر امریکیوں نے انہیں اپنے ہاں مدعو کر لیاتھا۔اب کی بار وزیرِ اعظم پاکستان نے امریکی سرد مہری کے نتیجے میں روس کا رخ کیا توانہیں اُن کے عہدے سے ہی ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پاک امریکہ تعلقات کے باب میں گذشتہ ستر پچھہتر برسوں کے دوران کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت جو بھی ہو،یہ عقیدہ اپنی جگہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی سیاسی رہنماء یا فوجی آمر کے لئے اقتدارمیں آنے کے لئے امریکی تائیدکا حصول لازمی ہے۔ دیکھا جائے تو آج ملک میں ایک انتہائی غیر مقبول حکومت قائم ہے۔ پارلیمنٹ سمیت جمہوری ادارےDysfunctional ہیں۔بد قسمتی سے تمام تر سختیوں کے باوجود قومی ادارے بے رحم عوامی تنقید کے نشانے پر ہیں۔ سفید پوشوں کو اگرچہ ریاستی ہتھکنڈوں کے ذریعے وقتی طور پر خاموش رکھا جا سکتا ہے، تاہم نظام سے نفرت اور بے زاری اگرقریہ قریہ گلی کوچوں کے اندر اُتر گئی ہو تولوگوں کو کب تک ڈرایادھمکایا جا سکے گا ؟ جبر کا نظام مگر عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے مقامی مہروں کے سہارے کھڑا رہنے پر مصرہے۔ امریکی امدادکا منہ کو لگا خون چھٹ کر نہیں دے رہا۔ہمارے جادوگر وزیرِ خزانہ آج بھی امریکہ میں نچلے درجے کے امریکی افسروں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ضرورپاکستانیوں کے لئے مدد امداد کے لئے کوشاں ہوں گے۔ روس سے سستے تیل اور گندم کی فراہمی کے لئے بات چیت مگر ہم مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ لے کرآگے نہیں بڑھا رہے۔یہ کہنا آسان نہیںکہ اس وقت چین کو ہم نظر اندازکئے ہوئے ہیں، یا کہ چین ہم سے منہ دوسری طرف موڑے بیٹھا ہے ۔ پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کا عفریت سر اٹھا رہا ہے۔طالبان حکومت مگر ہمیں مغرب ، بالخصوص امریکہ کے زیرِ اثر سمجھتے ہوئے ہم سے متعلق شدید بد گمانی کا شکاراور کچھ عرصے سے حالتِ طیش میں نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف ہمارے عشروں کے اتحادی نے کہ جس کی خوشنودی کے لئے ہم منتخب حکومتوں کی معزولی اور اپنے جان و مال سمیت ہر قسم کی قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، اپنی سالانہ قومی سلامتی کی رپورٹ میں بھارت کی مدح سرائی کے مقابلے میںہمار ا نام تک لینا مناسب نہیں سمجھا۔حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو امریکہ کو سرِ دست ہماری ضرورت بھی نہیں۔ اہم عہدیدار مگر اب بھی امریکہ کو پاکستان کی تزویراتی اہمیت باور کروانے کے لئے کوشاں ہیں۔ دیکھا جائے تو ستر پچھہتربرسوں کے دوران ہمارے ہاں کچھ بھی تونہیں بدلا۔