پاکستان اور سعودی عرب نے معاشی اور سیاسی تعاون کو نئے منصوبوں کی صورت میں ڈھالنے پر اتفاق کیا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے دوران سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے پاک سعودی سپریم کو آرڈی نیشن کونسل کے قیام کے فیصلے کو حتمی شکل دی۔پاکستان نے سعودی عرب کو سی پیک کے تحت قائم ہونے والے خصوصی اکنامک زونوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔سعودی وزیر خارجہ کی صدر مملکت اور وزیر اعظم سے ملاقاتوں کے دوران دوطرفہ تعلقات‘کثیر الجہتی تعاون کے فروغ‘کشمیر‘ افغانستان اور فلسطین کے تنازعات پر لائحہ عمل کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کا حالیہ دورہ پاکستان رواں برس مئی میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے دو طرفہ تعلقات میں مضبوطی کے لئے متفق قرار پائے معاملات پر پیشرفت کے تناظر میں ہے۔مئی ہی میں وفاقی کابینہ پاک سعودی سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کے قیام کی منظوری دے چکی ہے۔اس کونسل کی تشکیل اس لحاظ سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ سن 2019میں جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان تشریف لائے تو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سرمایہ کاری کے متعدد معاہدے طے پائے۔ ان معاہدوں پر عملدرآمد کے لئے سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کا کردار مرکزی ہو گا۔برادر ملک سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مملکت سعودی عرب کے لئے وژن 2030ء کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔اس وژن 2030ء کے تحت سعودی عرب مختلف شعبوں میں اصلاحات متعارف کرا رہا ہے۔داخلی سطح پر غیر ملکی لیبر کے متعلق نئے قوانین لائے جا رہے ہیں۔سعودی عرب روائتی برادرانہ تعلقات کا لحاظ رکھتا رہا ہے۔شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے سلطنت کے اہم امور میں بااختیار ہونے کے بعد بہت سی تبدیلیاں دکھائی دیں لیکن سعودی عرب نے پاکستان اور دیگر برادر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے پرانی روایات کا پورا احترام کیا۔وزیر اعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد جب قومی خزانے کا جائزہ لیا تو صورت حال فقط مایوس کن نہ تھی بلکہ تشویشناک تھی۔غیر ملکی قرض کی اقساط ادا کرنے کے لئے رقم نہ تھی۔درآمدی بل برآمدات سے دوگنا تھا۔تیل خریدنے کے لئے رقم نہ تھی۔ایسے حالات میں وزیر اعظم آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریزاں تھے۔پی ٹی آئی حکومت نے چین‘متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے مدد کی درخواست کی۔سعودی عرب نے تین سال تک سالانہ 3ارب ڈالر کا تیل ادھار دینے کا اعلان کیا۔سعودی عرب نے تیل کے علاوہ تین ارب ڈالر اکائونٹ میں رکھنے کے لئے دیے۔مالیاتی مسائل کے شکار پاکستان کے لئے برادر مسلم ملک کا یہ تعاون قابل قدر سمجھا جاتا ہے تاہم وزیر اعظم عمران خان اس امر پر بات کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو امداد کی بجائے تجارت اور سرمایہ کاری فراہم کی جائے۔ سی پیک کی ابتدائی شکل چین کے علاقے اقصائے چین سے لے کر گواد تک ایسی راہداری ہے جس کے ذریعے مال بردار ٹرانسپورٹ بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔بعدازاں راہداری کے منصوبے کے ساتھ دیگر پراجیکٹ تعمیر کرنے پر توجہ دی گئی۔مختلف علاقوں میں سپیشل اکنامک زون بنائے گئے۔ان اکنامک زون میں سرمایہ کاری کو محفوظ رکھنے اور کاروباری لحاظ سے منافع بخش بنانے کے لئے حکومت پاکستان نے کئی طرح کے ٹیکسوں کی چھوٹ دی۔چین نے لائیو سٹاک‘زراعت‘ہائی ٹیک مصنوعات اور فوڈ پراسیسنگ میں سرمایہ کاری کا آغاز کر دیا ہے۔سی پیک ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔چینی صدر کی ہدایت پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں دنیا کے بہت سے ممالک شامل ہو چکے ہیں۔پاکستان نے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کو سی پیک کے ذریعے مشترکہ تجارتی منصوبوں میں شرکت کی دعوت دی ہے۔خطے میں بدامنی اور پاکستان دشمنی کے حوالے سے مصروف بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ بھی اس راہداری سے فائدہ اٹھا کر اپنا مال نئی منڈیوں تک پہنچا سکتا ہے۔سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے دو طرفہ تعلقات کو معاشی اور تجارتی تعاون میں تبدیل کرنے کی خواہش نے یہ گنجائش پیدا کی ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔سعودی عرب کی طرف سے آئل ریفائنری اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں‘اسی طرح سعودی عرب 10ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کر رہا ہے۔پاکستان نے پچھلے چھ سات برسوں کے دوران بڑی تعداد میں درخت لگائے ہیں جس سے مقامی ماحول میں بہتری آئی ہے۔سعودی عرب کو پودوں کی فراہمی اور پودے لگانے کے لئے افرادی قوت فراہم کر کے پاکستان ہاتھ بٹا سکتا ہے۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو سال قبل دورہ کے دوران طے پانے والے معاملات پر تبادلہ خیال سے تاخیر کا احساس ابھرتا ہے تاہم اس امر پر اطمینان محسوس کیا جاتا ہے کہ دونوں ممالک اب تک اپنے باہمی تعلقات میں بہتری کے لئے کئے گئے معاہدوں پر عملدرآمد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔بین الاقوامی اور علاقائی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب کو ان تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر ایک دوسرے کا ناصرف ہاتھ تھامنا ہے بلکہ ماضی کی طرح ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے گرمجوشی کا اظہار بھی کرنا ہو گا۔امید کی جا رہی ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کے دورے کے دوران ایسے مسائل کے حل تلاش کر لئے جائیں گے جو دونوں ملکوں کے معاشی تعاون میں رکاوٹ ثابت ہوتے رہے ہیں۔