12اپریل کو واشنگٹن میں منعقد ہونے والے اپنے چوتھے سالانہ وزارتی اِجلاس کے اِعلامیے میں امریکہ اور ہندوستان نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف "فوری، پائیدار اور ناقابل واپسی کارروائی" کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے زیر کنٹرول کوئی علاقہ دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔ اِس سالانہ 2+2 وزارتی اِجلاس میں ہندوستان کے خارجہ امور اور دفاع کے وزرائے ایس جے شنکر اور راج ناتھ سنگھ اور امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن او سیکریٹری آف ڈیفنس لائیڈ آسٹن نے شرکت کی۔ یہ ڈائیلاگ ہندوستان کے خارجہ اور دفاعی وزراء اور اس کے اتحادیوں کے درمیان اسٹریٹجک اور سیکورٹی مسائل پر بات چیت کا ایک فارمیٹ ہے۔ ہندوستان اِس فارمیٹ پر اپنے چار اسٹریٹجک شراکت داروں - امریکہ، روس، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔ وزارتی اِجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں، دونوں ممالک نے تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی پر زور دیا، جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی کمیٹی 1267 کی طرف سے کالعدم تنظیمیں شامل ہیں، جیسے کہ القاعدہ، آئی ایس آئی ایس/داعش، کالعدم لشکرِ طیبہ ،کالعدم جیشِ محمدور حزب المجاہدین۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اِس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اِسے "دونوں ممالک کی انسداد دہشت گردی کی توجہ کے ساتھ غداری" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ "یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دو طرفہ تعاون کے طریقہ کار کو سیاسی مصلحت کے لیے تیسرے ملک کو نشانہ بنانے اور عوام کی رائے کو حقیقی اور ابھرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بیان میں پاکستان کے خلاف کیے گئے دعوے بدنیتی پر مبنی ہیں اور اِن میں کوئی اِعتبار نہیں ہے۔" پاکستان اَمریکہ باہمی تعلقات کی تاریخ دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات میں آنے والے کئی اتار چڑھاؤ سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات اس وقت شروع ہوئے جب پاکستان نے 1954 اور 1955 میں امریکہ کے زیر اہتمام دفاعی معاہدوں SEATO اور CENTO میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کی تاہم 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی فوجی امداد اور 1965 کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر امریکہ اور برطانیہ کا پاکستان اور بھارت کے ساتھ برابری کے سلوک پر پاکستان کو سخت مایوسی ہوئی۔ جب سابق سوویت یونین نے 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی بن گیا جبکہ امریکہ اس وقت سویت یونین سے ویت نام کی جنگ میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ افغانستان سے سوویت افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تنہا رہ گیا۔ نائن الیون کے تناظر میں، پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا شراکت دار بن گیا اور صدر جنرل مشرف، امریکی صدر بش کے نام نہاد "لنگوٹیے یار" بن گئے۔ پاکستان اَب افغانستان میں امریکہ کے پیدا کردہ مسائل سے اکیلے نمٹنے کی کہانی کو دہرانا نہیں چاہتا اور افغانستان میں پائیدار امن چاہتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ دو طرفہ تعلقات کو اب ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جسے جمود سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور باہمی تعلقات بائیڈن انتظامیہ کے بلا جواز مطالبات کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہے جسکی تازہ مثال 2+2 وزارتی اِجلاس کا اِعلامیہ ہے جس میں امریکہ نے بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان پر اِیک با پھر دباؤ ڈال کر ڈو مور (Do More) کا مطالبہ کردیا ہے حالانکہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں عالمی برادری کا ایک بڑا، فعال، قابل اعتماد اور رضامند شراکت دار رہا ہے جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیاں اور قربانیاں بے مثال ہیں اور اَمریکہ سمیت عالمی برادری نے اِسے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا ہے اور خطے کے کسی ملک نے بھی اَمن کے لیے پاکستان سے زیادہ قربانیاں نہیں دی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات ہمیشہ باہمی فائدہ مند رہے ہیں اور جنوبی ایشیا میں استحکام کے لیے ایک اَہم عنصر کی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ امریکہ کے ساتھ ایک متوازن تعلقات کا خواہش مند رہا ہے جو تجارت ، سرمایہ کاری ، توانائی اور علاقائی رابطے پر مشتمل ہوں لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں اور بدقسمتی سے آگے کی جانب نہیں بڑھ رہے۔ افغانستان اور چین فیکٹر پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات کی تعمیرِ نو میں دو اَہم رکاوٹیں ہیں جبکہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ایک ملک کا قریبی پارٹنر دوسرے ملک سے شدید عداوت رکھتا ہے اِنڈیا اَمریکہ کا شراکت دار ہے جبکہ پاکستان اور انڈیا کی باہمی عدوات ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اِسی طرح پاکستان کے چین کے ساتھ گہرے قریبی تعلقات ہیں مگر امریکہ اور چین کی باہمی مسابقت موجوہ عہد کی ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ تاہم ، پاکستان کو "امریکہ اور چین کی باہمی عداوت" میں الجھنے سے بچنے کے لیے انتہائی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ملکوں کے باہمی تعلقات ہمیشہ ان کے ذاتی مفادات اور منفعت کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں اگر ایک ملک کو باہمی تعلقات سے فائدہ حاصل نہیں ہورہا تو وہ تعلقات کیونکر قائم اور برقرار رکھے گا۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات بھی اِس سے مستثنیٰ نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ہمیشہ سے مفادات کی بنیاد پر استوار کیے گئے اور ملکی مفادات کے گِرد گھومتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دونوں ملک اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر آگے بڑھیں گے۔ پاکستان اَمریکہ جیسے شراکت دار ملک سے توقع کرتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے مسائل کے بارے میں ایک معروضی نقطہ نظر اپنائے اور اپنے آپ کو یکطرفہ، سیاسی طور پر محرک اور زمینی حقائق سے منقطع ہونے والے نکتہ ہائے نظر سے جوڑنے سے گریز کرے۔ ٭٭٭٭