یہ پاکستانی طالب علموں کا ایک ویڈیو پیغام ہے جو آپ سب نے بھی یقینا دیکھا اور سنا ہو گا۔ کرونا وائرس سے بچائو کے لئے چہروں پر حفاظتی ماسک چڑھائے ہوئے طالب علموں کا ایک گروپ حکومت پاکستان سے استدعا کر رہا ہے کہ وائرس کے پھیلائو کے بعد وہ اپنے ہوسٹل کے کمرے میں قید ہو چکے ہیں ان کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہونے والا ہے۔ یہاں چین میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پاکستانی ایمبیسی ان سے تعاون نہیں کر رہی۔ انہیں فوراً پاکستان لے جانے کے انتظامات کئے جائیں۔یہ پیغام اور اس سے ملتے جلتے دیگر ویڈیو اور خبروں نے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑا دی خصوصاً چین میں موجود پاکستانی طالب علموں کے خاندان سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ ان کا یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ چین میں پھنسے ہوئے ان کے بچوں کو حکومت پاکستان واپس لے کر آئے۔ دوسری طرف سرکار کے نمائندے یہی یقین دہانی کرواتے رہے کہ پاکستانی طالب علم وہاں کسی خطرے سے دوچار نہیں۔ چین جلد اس وائرس کے پھیلائو پر قابو پا لے گا۔ کچھ آوازیں اس دلیل کے ساتھ بھی سنائی دیں کہ پاکستان کا مخدوش ہیلتھ سسٹم اس قابل ہی نہیں کہ اس وائرس کے پھیلائو‘ بچائو اور پھر علاج کے پورے عمل کو ایک فول پروف طریقے سے سرانجام دے سکے۔یہ صورت حال گھمبیر تھی اور بطور پاکستانی مجھے بھی یہ تشویش تھی کہ چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طالب علموں کے مسئلے کا کیا ممکنہ حل ہو سکتا ہے اور اس پر حیرانی بھی کہ کیا چین کی حکومت اس صورت حال میں پاکستانی طالب علموں کے تحفظ کو نظر انداز کر رہی ہے جبکہ چین میں 28ہزار پاکستانی طالب علم موجود ہیں۔سچائی کو جاننے اور سمجھنے کے لئے میں نے چین میں رہنے والے پاکستانیوں سے رابطہ کر کے پوچھا کہ کیا صورت حال ویسی ہے جو یہاں میڈیا میں یا چند ویڈیو پیغامات میں بتائی جارہی کہ پاکستانی طالب علموں کا کوئی پرسان حال نہیں۔میرا رابطہ چائنا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے طالب سید آفاق علی شاہ سے ہوا۔ جو حقائق انہوں نے بتائے وہ من و عن میں اپنے قارئین سے شیئر کروں گی۔ اس صورت حال پر ان کا تبصرہ ان خبروں سے بالکل برعکس ہے جو یہاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔آپ چین کے کس شہر میں ہیں وہاں کیا صورت حال ہے اور آپ کا پاکستان واپس آنے کے حوالے سے کیا نقطہ نظر ہے؟میں یہاں چین کے شہر ڈانگ گوان کی ڈانگ گوان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رہا ہوں۔ ساتھ جاب بھی کرتا ہوں یہاں ابھی تک کرونا وائرس کے 31کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ڈانگ وانگ‘ وہان شہر سے ویسے تو ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن سپر سپیڈ ٹرینوں کے ذریعے صرف دو گھنٹے میں ڈانگ وانگ سے ووہان جا سکتے ہیں۔جہاں تک صورت حال کا تعلق ہے چائنا کی حکومت وائرس کے پھیلائو کو روکنے اور وائرس میں مبتلا مریضوں کے علاج معالجے کے لئے بہترین اقدامات کر رہی ہے۔ میں بطور پاکستانی مکمل طور پر ان اقدامات سے مطمئن ہوں۔اس صورت حال میں یعنی آپ پاکستان نہیں آنا چاہتے؟ میرا سوال تھا جی بالکل کیونکہ جو preventive measures۔چین کی حکومت لے رہی ہے پاکستان ان اقدامات کا ایک فیصد بھی کرنے کا متحمل نہیں۔ سیدآفاق نے جواب دیا اور جو پاکستانی طالب علموں کے حوالے سے خبریں آ رہی ہیں کہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں کھانے یا پینے کا سامان تک ختم ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس میں سچائی نہیں ہے کیونکہ میں بھی ایک طالب علم ہوں یہاں ہمارا مکمل خیال رکھا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل افیئرز کی انچارج صبح شام میسج کر کے ہم سے تازہ ترین صورت حال پوچھتی ہے۔ اگر کسی کو اپنی طبیعت میں خرابی محسوس ہوتی ہے تو اس کے کمرے کے باہر پوری ٹیم آ کر اس کا ٹمپریچر لے گی۔ خون کے سمپل لے گی اسے کہیں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔ ہمارے ہوسٹل کے گیٹ پر جسم کے درجہ حرارت کو ناپنے والے تھرمو سکینر لگے ہیں۔ ماسک پہنے بغیر کوئی اندر نہیں آ سکتا۔ حلال پاکستانی کھانا طالب علموں کے کمروں کے دروازوں پر پہنچ جاتا ہے بس آن لائن خود اس کا آرڈر کرنا پڑتا ہے۔پہلے تو ہمیں شریعت بھی منع کرتی ہے کہ جس شہر میں وباء ہو وہاں نہ جائو اور اگر وہاں سے خوف کے مارے مت نکلو۔ دوسرا ہمیں عقل بھی یہی مشورہ دیتی کہ وائرس سے نمٹنے کی جو صلاحیت چین میں ہے پاکستان اس کا ایک فیصد بھی نہیں کر سکتا۔ یقین جانیں کہ اس صورت حال میں چائنا کی حکومت ہمارا پہلے سے زیادہ خیال رکھ رہی ہے میرے پاس ماسک ختم ہو گئے تھے میں نے صرف ایک میسج کیا تو مجھے ماسک پہنچا دیے گئے۔ انشاء اللہ جلد ہی یہ وقت گزر جائے گا اور حالات نارمل ہو جائیں گے۔ڈانگ گوان میں مقیم پاکستانی طالب علم سے بات کرنے کے بعد میں نے بیجنگ میں چائنا ویڈیو کی اردو سروس سے وابستہ پاکستان کے نہایت قابل براڈ کاسٹر زبیر بشیر سے بھی بات کی۔ جس کا خلاصہ یہی ہے کہ صورت حال ایسی بری نہیں جس کی تشہیر میڈیا میں کی جا رہی ہے۔130کروڑ آبادی میں سترہ سے 20ہزار کرونا کے کیسز ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کے مقابلے میں کم ہے۔ مرنے والوںمیں 80فیصد وہ لوگ تھے جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ تھیں اور وہ کئی دوسری بیماریوں کا شکار بھی تھے۔ پاکستان ایمبیسی کے متعلقہ افسران پاکستانی طالب علموں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ جن میں منسٹر کمیونٹی ویلفیئر علی صابر کیانی کا نام نمایاں ہے۔ جن میں چار پاکستانیوں میں وائرس کی تشخیص ہوئی تھی ان میں ایک طالب علم صحت یاب ہو چکا ہے باقی تین کا علاج جاری ہے۔ کالم کا مقصد یہی تھا کہ حالات کی اصل تصویر کو سامنے لایا جائے کہ پاکستانی طالب علم چین میں اس وقت کن حالات میں رہ رہے ہیں۔