اِن دنوں ہم برطانیہ کے پارلیمانی نظام کی برکات سے مستفید ہورہے ہیں۔ سیاسی اصطبل کھلے ہوئے ہیں۔ یہ نظارہ پہلی بار دیکھنے میں نہیں آرہا۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں ہر چھ ماہ ‘سال بعد وزیراعظم بدلتے تھے۔ بعض مسکین مثلاً آئی آئی چندریگر صرف چند ہفتوں کیلئے وزیراعظم ہاؤس کے مہمان ہوئے۔پیشہ ور سیاستدانوں اور سول افسر شاہی کے ہوس ِاقتدار نے نوزائیدہ ملک کو ایک تماشہ بناکر رکھ دیا تھا۔ان بے تحاشا مسائل و مشکلات کی پرواہ نہیںکی جس سے نئی مملکت دوچار تھی۔ مہاجرین کا سیلاب تھا۔ مالی وسائل ناپید تھے۔ بھارت نے دریاؤںکا پانی بند کردیا تھا لیکن ممتاز دولتانہ وزیراعلیٰ پنجاب افتخار ممدوٹ کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ ہمارا قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر ایسا ہے کہ ہر سیاستدان سردار‘ چودھری‘ حاکم بننا چاہتا ہے۔ اپوزیشن میں بیٹھنا اس کے بس کی بات نہیں۔ فیوڈل مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حلقہ بندی پر مشتمل برطانوی پارلیمانی نظام ہم نے انگریزوں کی ڈیڑھ سو سال کی غلامی کے دوران ورثہ میں پایا جیسے اینگلو سیکسن روایات پر مبنی قانونی نظام اور انگریزی زبان۔ ان چیزوںپر ہماراجدید تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کی طرح ایمان لے آیا۔ چونکہ انگریزوں کا دنیا پر غلبہ تھا۔ وہ دنیا کے حکمران تھے۔ ہم ان کی نو آبادی اور شکست خوردہ۔ ان کے محکوم تھے۔ ان کی ہربات پر آمنا و صدقنا کہا۔ ہمارے دانشوروں کے ذہن میں برطانوی‘ انگریزی زبان‘ قانونی نظام اورحلقہ بندیوں پر مشتمل پارلیمانی نظام حکومت مذہب کا درجہ اختیار کرگیا۔ اسلام کا لیبل برائے نام ہے۔ برطانیہ کے معاشرہ کی ساخت‘ معاشی ڈھانچہ‘ تاریخ و روایات ‘ تہذیب واقدار‘ اسلوب ِزندگی‘ رسوم و رواج ہمارے معاشرے سے یکسر مختلف ہیں۔لیکن ہم ٹاٹ میں مخمل یا مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگانے پر مصر ہیں۔ برطانیہ میں کوئی تحریری آئین نہیں۔ پارلیمانی روایات دستور کا درجہ رکھتی ہیں۔ پارلیمان سادہ اکثریت سے جو قرارداد منظور کرے وہ قانون اور آئین ہے۔ ہمارے ہاں جب انیس سو تہتر کا آئین بنایا گیا تو اس میں آئینی ترمیم کیلیے قومی اسمبلی اور سینٹ کی سادہ اکثریت درکار تھی۔ اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو نے آئین بنتے ہی اس میں اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود یک طرفہ طور پرپانچ ‘ چھ ترامیم کرڈالیں۔ جنرل ضیاء الحق نے انیس سو پچاسی کی اسمبلی سے آٹھویں ترمیم منظور کروائی۔ اس میں آئینی ترمیم کرنے کے لیے پارلیمان کی دو تہائی اکثریت کا ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ برطانیہ کا پارلیمانی نظام اس ملک کے ترقی یافتہ صنعتی معاشرہ ‘ پروٹیسٹنٹ مذہب اور عقلیت‘ سیکولر ازم کی تحریک کے تحت پروان چڑھنے والی تہذیب اور معاشرت سے ہم آہنگ ہے۔ وہاں لوگ ذات‘ برادری کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالتے۔ دو تین بڑی سیاسی جماعتیں نظریاتی بنیادوں پرقائم ہیں۔ ووٹ ان سے وابستگی کی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد نہیں گھومتیں۔ان میں جمہوریت ہے۔ پارٹی عہدیداروں کے باقاعدگی سے صاف شفاف الیکشن ہوتے ہیں۔ سیاسی خاندانوں کی اُجارہ داری نہیں۔ پارٹی لیڈر آتے جاتے رہتے ہیں۔ کتنے ہی وزیراعظم رخصت ہوتے ہی گمنامی میں چلے گئے۔ہمارے ہاں موت سے پہلے سیاستدان کی ریٹائرمنٹ کاتصور نہیں۔ امریکہ اور یورپ میں لبرل جمہوری تمدن ہے۔ اس کے بنیادی اصول میں ہر شہری قانون کے سامنے برابر ہے۔ برطانیہ میں یہ سوچا نہیں جاسکتا کہ امیر‘ دولت مند آدمی قانون سے بالاتر ہے۔ وہ اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی بدولت قانون کے شکنجے سے بچ سکتا ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اس بات کا تصّور کرنا محال ہے کہ کسی دولت مند یا بڑے جاگیر دار‘ قبائلی سردار کو کسی جرم کی سزا مل جائے۔کاغذوں میں لکھے ہوئے قانون کی اہمیت نہیں ۔ عملی طور پردولت مند لوگ قانون سے بالاتر ہیں۔ ولایت میں کسی ایم این اے سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے حلقہ کے لوگوں کو سفارش پر سرکاری ملازمت دلوائے۔ تھانہ کچہری میںان کی مدد کرے۔ بلکہ ایسا کرے تو مجرم قرار پائے گا۔ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارا معاشرہ برادری‘ قبیلہ کے رشتوں پر استوار ہے۔ ان تعلقات کی پاسداری نہ کرنے والا مطعون ہوتا ہے۔ بہت بُرا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ عقلیت کی بجائے روایات کی اہمیت ہے۔ جب پارلیمانی نظام کے تحت حکومتیں بنتی بگڑتی ہیں ہمارے ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے۔ انیس سو اسیّ کی دہائی تک معاشی ترقی عروج پر تھی۔ پارلیمانی نظام بحال ہوتے ہی معیشت کا بیڑا غرق ہونے لگا۔ دس سال تک ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔اب گزشتہ چودہ برسوں سے یہ نظام چل رہا ہے۔ معیشت کا ابتر حال سب کے سامنے ہے۔رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں تجارتی خسارہ پینتس ارب ڈالر تک پہنچ چکا ۔ حکومت مجبورہوتی ہے کہ ایسی پالیسی بنائے جس سے لوگ وقتی طور پر خوش ہوں تاکہ اپوزیشن فائدہ نہ اٹھائے لیکن اس حکمت عملی سے ملک کا دیرپا معاشی نقصا ن ہوتا ہے۔ خطرناک بات یہ ہوئی ہے کہ پیشہ ور سیاسی طبقہ نے کرسی کے لالچ میں بیرونی مداخلت کو قبول کرلیا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ پر اربوں روپے لٹائے جارہے ہیں۔آج امریکہ پر مداخلت کا الزام ہے۔ کل یہ کام ہمارا دشمن ملک بھارت بھی کرسکتا ہے۔ دس بارہ ارب روپے خرچ کرکے پاکستان میں کسی حکومت کوہٹاکر اپنی من پسند‘ کٹھ پتلی حکومت بنواسکتا ہے۔بڑے ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے ‘ رقوم خفیہ طور پر بھیجنے کے طریقے موجود ہوتے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے۔ انگریزوں سے مرعوب طبقہ اور پیشہ ور سیاستدانوں نے پارلیمانی نظام حکومت کی محبت میں ملک کی سلامتی اور بقا کو داو ٔپر لگادیا ہے۔ تعلیم یافتہ لبرل طبقہ کو اسلام سے چڑہے۔ انہیں اسلامی نظریہ پر قائم اس مملکت کی خود مختاری قابلِ قبول نہیں۔ وہ پاکستان میں مغربی سامراج کی کٹھ پتلی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں بتدریج مغربی تہذیب پروان چڑھے۔ اس مقصد کی خاطر پارلیمانی نظام حکومت بہترین راستہ ہے کیونکہ ا س میں پیشہ ور سیاستدانوں کوخرید و فروخت اور دیگر ترغیبات کے ذریعے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔