صدر مملکت جناب عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خارجہ اور معاشی میدان میں حکومت کی کارکردگی کو سراہا۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو علاقائی امن کے لئے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔ بھارت حالات کو ایسے مقام پر نہ لے جائے جہاں سے واپسی مشکل ہو۔ وطن عزیز میں جمہوریت کے مستقبل کی بات کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ وفاقی اکائیوں کی مضبوطی سے پائیدار جمہوریت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے حکومت کو پہلا پارلیمانی سال مکمل کرنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ حکومت اور پارلیمان پر نظر رکھنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ مسلح افواج کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے صدر مملکت نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اس کے کردار کو سراہا۔ صدر مملکت نے ایک سال میں کابینہ کے 50اجلاسوں ‘ کفایت شعاری‘ آئی ٹی کے شعبہ کے فروغ اور بلا امتیاز احتساب کے معاملات پر حکومتی کارکردگی کو قابل تعریف قرار دیا۔ تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں بائیس برس تک اپنا ایجنڈا عوام تک پہنچایا۔ ملک میں اگرچہ کثیر الجماعتی نظام موجود ہے لیکن گزشتہ چھتیس برس میں اقتدار ہمیشہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو ملتا رہا۔ عموماً ایک جماعت جب اقتدار میں آتی تو دوسری اگلی بار اپنے اقتدار کی امید لگائے ہوتی‘ یہ امید پوری بھی ہو جاتی۔ اس معمول نے عملی طور پر ملک کو دو جماعتی نظام عطا کیا۔ دونوں جماعتیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتیں اور انتخابات کے موقع پر عوام دوست منشور لا کر ایک دوسرے کا مقابلہ کرتیں تو یقینا اہل پاکستان کی مشکلات کم ہوتیں۔ ملک ترقی کرتا اور معاشی و سیاسی استحکام پیدا ہوتاہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس دوران دونوں جماعتوں نے پارلیمنٹ میں سنجیدہ معاملات پر بہترین رائے کی تشکیل میں کوئی کامیابی حاصل کی نہ پارلیمانی آداب کو جمہوری شکل میں قبول کیا۔ پیپلز پارٹی نے صدر غلام اسحاق خان کے سامنے گو بابا گو کے نعرے لگائے تو مسلم لیگ ن نے صدر لغاری کے سامنے چوڑیاں پھینکنے کی ناپسندیدہ حرکت کی۔ اسی رویے کے باعث جنرل پرویز مشرف نے بطور صدر پارلیمنٹ سے خطاب کے بعد اراکین پارلیمنٹ کو غیر مہذب قرار دیا۔ دونوں سابق حکمران جماعتوں نے بجٹ سیشن پر ہنگامہ آرائی‘ صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر شور شرابہ اور وزیر اعظم کی تقریر کے موقع پر نامناسب طرزعمل کی جو نظائر قائم کیں وہ اب جڑ پکڑ چکی ہیں اور دونوں جماعتیں اپوزیشن کا جمہوری کردار ادا کرنے کے بجائے اب مل کر وہی سب کچھ تحریک انصاف کی حکومت اور صدر عارف علوی کے خلاف کرتی دکھائی دیں۔خصوصاً جب صدر عارف علوی مظلوم کشمیریوں کے مصائب بیان کر کے عالمی برادری کو متوجہ کر رہے تھے، اس وقت اپوزیشن نے شور مچا کر کشمیریوں کے ساتھ سخت زیادتی کی اور بھارت کے خلاف پاکستانی قوم کے متفقہ مؤقف کو نقصان پہنچایا۔بلا شبہ تحریک انصاف کو مشکل حالات میں اقتدار ملا۔ ان مشکل حالات میں احتساب اور معاشی ترقی کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل تر کام ہے کشمیر کے معاملے پر پاکستان اوربھارت کے درمیان جو کشیدگی پائی جاتی ہے وہ دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی کو کھا رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے تحریک انصاف کی حکومت پر شرح نمو تین فیصد کے لگ بھگ کرنے کو ایک ناکامی بتایا جا رہا ہے۔ یاد رہے مسلم لیگ ن کا اقتدار جب ختم ہوا تو شرح نمو4.5فیصد تھی۔ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان کی شرح نمو 2.5فیصد تک گر سکتی ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سطح 3.5فیصد تک رہے گی۔ دوسری طرف بھارت ہے جس کی ایک سال کے دوران شرح نمو8فیصد سے کم ہو کر 3.9فیصد تک آ گئی ہے۔ پاکستان معاشی اصلاحات کے عمل سے گزر رہا ہے۔ کالے دھن پر چلنے والی معیشت کو درست بنیادوں پر استوار کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جو ٹیکس‘ رقم کی منتقلی اورسرمایہ کاری کے معاملات کو شفاف نہیں رکھتے۔ ان تمام معاملات کو پیش نظر رکھیں تو حکومت کی معاشی کارکردگی خطے اور داخلی معاملات میں خرابیوں کے باوجود درست سمت آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی کارکردگی کے حوالے سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عمران خان سابق حکومتوں کے طرز حکومت‘ غیر جمہوری رویوں‘ اقربا پروری‘ اختیارات سے تجاوز اور ناقص پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔ ان کے حامی اس سے یہ تاثر قبول کرتے رہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو تمام خرابیاں چند ماہ میں درست ہو جائیں گی۔ حکومت نے سادگی مہم شروع کر کے علامتی سہی مگر ایک مثبت پیغام دیا۔ کابینہ کے اجلاس باقاعدگی کے ساتھ ہو رہے ہیں جن میں اہم قومی معاملات پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ دہشت گردی نے پاکستان کی دفاعی‘ معاشی اور سماجی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ پوری قوم نے اس لڑائی کو جان اور مال کی قربانیاں دے کر جیتا ہے۔ سب سے قابل ذکر کردار سکیورٹی اداروں کا رہا۔ امریکہ جیسی سپر پاورجس لڑائی میں شکست کھا کر فرار ہو رہی ہے پاکستان نے داخلی بحرانوں اور خارجی کمزوریوں کے باوجود بلند حوصلہ افواج کی وجہ سے اس میں ملک و قوم کا شاندار تحفظ کیا۔ سکیورٹی اداروں کی ان کوششوں کی ستائش ضروری ہے۔ خصوصاً سربراہ مملکت جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ان قربانیوں کو سلام پیش کریں تو اس کے معانی کے ساتھ ایک قومی اعتراف کا احساس لپٹ جاتا ہے۔ حکومت کی کارکردگی میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ خصوصاً نظام کہنہ کی عادی پولیس اور بدعنوانی سے آلودہ انتظامی مشینری کو راہ راست پر لانا عوام کو ہزاروں دکھوں سے بچانے کا ذریعہ ہو سکتا ہے جس کی جانب تحریک انصاف کی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔