پاکستان کے عوام گزشتہ ستر سالوں سے دعائیں کر رہے تھے عوام کی یہ آرزو پوری ہوگئی کہ قانون امیر و غریب، طاقت ور اور کمزور کے لیے یکساں نافذ ہو۔ اس قانون کا اطلاق صرف غریب اور پسماندہ طبقات تک ہی محدود نہ ہو، اب انصاف ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس کی ایک جھلک 13 جولائی کو پوری قوم نے دیکھی۔ وہی لاہور ایئرپورٹ جس جگہ ہائوس آف شریف کے پروٹوکول اور استقبال کے لیے وزیراعلیٰ سے لے کر چیف سیکرٹری اورآئی جی تک قطار میں کھڑے رہتے تھے، اس روز حکومت پاکستان کے سرکاری اہلکاروں نے میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو حراست میں لے کر اڈیالہ جیل پہنچا دیا۔ کوئی تصور کرسکتا تھا کہ شریف خاندان کا بھی احتساب ہوگا۔ بہرحال یہ ابتدا ہو گئی ہے لندن میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ میاں نوازشریف نے برابر اپنے دوست سربراہان مملکت سے رابطہ کیا اور ان کی مدد چاہی۔ امریکہ اوربرطانیہ کی انتہائی اہم شخصیات سے بھی رابطوں کا سلسلہ ہوا مگر دونوں جانب سے اس بار صاف بتا دیا گیا کہ پاکستان کی عدالتوں کے فیصلوں میں مداخلت کرنا نہ تو ہماری پالیسی ہے اور نہ ہی سفارتی سطح پر اب ممکن ہے کہ کسی حکومتی سطح پر دوسری حکومت کو مجبور کیا جائے کہ کرپشن کے مقدمات میں ریلیف دیا جائے۔ اسی طرح مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر احمد کے ذریعے پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح ابوظہبی کے حکمران کی مدد حاصل کی جائے۔ اسی بنا پر چند گھنٹوں کا قیام بھی وہاں کیا گیا۔ سعودی عرب اور خاص طور پر قطر سے بھی رابطہ کیا گیا تاکہ حمایت حاصل ہو سکے۔ تمام جانب سے کورا جواب دیا گیا۔ کویت اور ترکی کے اعلیٰ حکام سے جب رابطے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو وہاں سے بھی صاف کہا گیا کہ ہماری سرزمین آپ کو پناہ تو دے سکتی ہے مگر کرپشن کے مقدمات کے حوالے سے حکومت پاکستان سے کسی صورت میں بھی دبائو نہیں ڈالا جا سکتا جس لابی کو لندن اور امریکہ میں میاں نوازشریف نے ٹارگٹ دے رکھا تھا اس فرم نے اپنے طور پر ایک نئے این آر او کے لیے عالمی دبائو بڑھانے کی حکمت عملی تو طے کر رکھی تھی مگر مغربی میڈیا میں کیونکہ کرپشن کے خلاف ہرجگہ آواز اٹھائی جا رہی ہے جس بنا پر اس لابی کو ناکامی ہوئی۔ حتیٰ کہ امریکہ میں حسین حقانی کے علاوہ برطانیہ میں بھی بعض پاکستانی دانشوروں نے برطانوی میڈیا میں ہائوس آف شریف کی حمایت میں سٹوریز فلوٹ کروانے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اب تک برطانیہ سے یوکرین اور نائیجیریا کے سابق سربراہان مملکت کے تمام اثاثے اور جائیدادیں برطانوی حکومت نے فروخت کر کے تمام پیسہ ان حکومتوں کو واپس لوٹا دیا ہے کیونکہ ان ممالک کی عدالتوں نے ان سربراہوں کے خلاف قومی دولت لوٹنے کے مقدمات میں ان کو مجرم ٹھہرایا تھا، اب جیساکہ میاں نوازشریف کے خلاف عدالتی فیصلہ آ چکا ہے کہ حکومت پاکستان کو باضابطہ طور پر حکومت برطانیہ سے رابطہ کر کے شریف خاندان کی تمام جائیداد اور اثاثوں کی تفصیل دے کر ان کی ضبطی کا معاملہ اٹھانا چاہیے اور پھر یہ دولت واپس پاکستان لانی چاہیے۔ لندن میں شریف خاندان نے اپنے اثاثے اور جائیدادیں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پارک لین کے چاروں فلیٹس اب کرائے پر دینے کا باضابطہ پروگرام بھی بن چکا ہے اس ضمن میں پارک لین کے قریب برطانوی پراپرٹی فرم نے اپنا کام بھی شروع کردیا ہے، اسی طرح نمبر1ہائیڈ پارک والا محل نما گھر جس کی قیمت کئی لاکھ پائونڈ ہے اس کی فروخت بھی کی جا رہی ہے، اسی طرح اسحاق ڈار نے بھی بے نامی کی جو جائیدادیں لندن میں بنا رکھی ہیں ان کی فروخت بھی کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بیرون ملک اثاثے اور جائیدادیں تو بنا رکھی ہیں مغربی بینکوں میں بے پناہ دولت بھی رکھی ہوئی ہے مگر دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ حکمران پاکستان میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے اورسیاسی جوڑ توڑ کی غرض سے مغربی طاقتوں سے کس طرح ساز باز کرتے رہے ہیں اور اقتدار کی بندربانٹ کی خاطر بیرون ملک مل کر غیر ملکی طاقتوں کا کس طرح آلہ کار بنتے رہے ہیں اس کی تمام تر تفصیل بعض مغربی ممالک میں شائع ہونے والی کتابیں ہیں جن میں پاکستان کے بارے میں بہت کچھ شائع کیا گیا ہے جس میں جنرل ضیاء الحق سے لے کر بینظیر بھٹو اور پھر میاں نوازشریف، جنرل پرویز مشرف اور پھر آصف علی زرداری اور پھر دوبارہ میاں نوازشریف تک چوکنا کر دینے والی تفصیلات موجود ہیں۔ ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کی مال کرپشن کے حوالے سے بھرپور معلومات Raymond W.Baker کی شہرہ آفاق کتاب Capitalism's Achilles Heel میں صفحہ 78 سے لے کر صفحہ 84 تک کا تعلق بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے مالیاتی معرکوں پر مبنی ہے۔ اسی طرح بینظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور پرویز مشرف کے پاور شیئرنگ کے معاہدے کے بارے میں تمام تفصیل Condolezza Rice کی کتاب No Higher Honor میں صفحہ نمبر 606 سے لے کر 612 تک موجود ہے۔ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف نے امریکی حکومت سے اپنا اقتدار بچانے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کئے اس کی تفصیل Steve Coll کی کتاب Ghost Wars کے صفحہ 410 سے لے کر 483 تک موجود ہے۔ میاں نوازشریف کے بارے میں Kim Barker کی کتاب The Taliban Shuffle کے صفحہ نمبر 250 سے لے کر 254 تک کا مطالعہ کیا جائے تو دلچسپ معلومات پڑھنے کو ملے گی۔ پاکستان میں اقتدار کے اس کھیل میں ہمارے حکمرانوں نے اپنے اپنے دور میں انوکھی داستانیں رقم کی ہیں، یہ تمام سلسلہ اصل میں جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوتا ہے جس کا خمیازہ ابھی تک پوری قوم بھگت رہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں غیر ملکی ہاتھوں نے پاکستان میں خفیہ طور پر مداخلت کی اور اپنے مقاصد پورے کروائے اور پھر اپنے مفادات کے لیے سرزمین پاکستان کو استعمال کیا اگر کسی کو دلچسپ ہے George Crile کی کتاب Charlie Wilson's War پڑھ لیں۔ اس کتاب میں جگہ جگہ پاکستان میں جس طرح غیر ملکی مداخلت ہوتی رہی ہے اس کا تذکرہ موجود ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنا اقتدار کس طرح مضبوط بنایا۔ تمام تفصیلات پڑھ کر آپ کو حیرت ہوگی۔ افسوس ہے کہ ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے اور ہمارے حکمران کسی نہ کسی حوالے سے اپنے مفادات کے لیے غیر ملکی ہاتھوں میں نہ صرف کھیلتے ہیں بلکہ خود اقتدار میں آنے کے لیے ان غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے کو پاکستان میں پورا کروانے میں سہولت کارکا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ غیر ملکی طاقتیں بخوبی جانتی ہیں کہ یہ حکمران کرپٹ ہیں اور ان کی دولت غیر ملکی بینکوں میں پڑی ہے اور ان کے اثاثے اور جائیدادیں بھی بیرون ملک ہیں۔ تبھی تو یہ حکمران خود غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار بنتے ہیں اور پھر ان کی مدد بھی مانگتے ہیں۔