عمر منظور اور علی خان جاننا چاہتے تھے کہ عمران خان اب تک ہماری امیدوں پر پورے کیوں نہیں اترے‘جب وہ یہ سوال پوچھ رہے تھے تو میرے حافظے میں 1997 میں ہیوی مینڈیٹ والے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن بے نظیر بھٹو کا خطاب گونج رہا تھا۔وہ کہہ رہی تھیں پارلیمانی نظام اور سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتا ہے ۔23 برس بیتے نہ پیپلز پارٹی پارلیمانی جمہوریت کی افادیت ثابت کر سکی نہ مسلم لیگ ن ۔میرے خیال میں اگر ذوالفقار علی بھٹو اس نظام میں سے ہمارے مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکے تو بدلتی ہوئی دنیا میں اس نظام سے سیاسی، جمہوری اور انتظامی مسائل کا حل ڈھونڈنا زیادہ مشکل ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ پارلیمانی جمہوریت پاکستان کے لئے نہیں۔ دونوں نوجوان بیرسٹر حیران تھے کہ دنیا کے بہترین قرار دیے گئے نظام کے بارے میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ ہر معاشرہ اپنی سماجی‘ ثقافتی‘ معاشی اور انتظامی ضروریات کے مطابق جمہوری اور سیاسی اداروں کی تشکیل کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں نے ایک دوسرے سے الگ الگ نظام وضع کر رکھا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم برطانیہ کے جمہوری نظام کی نقل کریں اور پھر خود کو ایک ترقی پذیراسلامی جمہوری ریاست بھی کہیں۔ جمہوری ترقی سے آراستہ اکثر ریاستیں مخصوص نظریات کی بنیاد پر استوار ہیں جبکہ پاکستان اور اس جیسی پسماندہ ریاستوں میں سماج شخصی مفادات پر تکیہ کرتا ہے۔ شخصی مفادات عوام اور سماج پر اچھے اثرات مرتب نہیں کر سکتے۔ ایسے ہی مفادات کی وجہ سے پسماندہ ممالک میں سیاسی گاڈ فادر عام ہیں۔ پارٹی کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا کہ گاڈ فادر ہی نظریہ ہوتا ہے۔منشور کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہر چیز فرد واحد ہوتا ہے ، ویسا ہی فرد واحد جیسا آمر ہو تا ہے۔اسی لئے ہم نے جمہوری لیڈر پیدا نہیں کئے ،سیاسی آمروں کو جنم دیا ۔ جمہوری نظام کے کامیاب یا ناکام ہونے کے معاملے میں یہ نکات زیر بحث آنے چاہئیں کہ اگر سماجی جمہوریت کی موجودہ شکل ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ثابت ہو رہی تو پھر ہمیں معاشی اور ٹیکنالوجیکل جمہوریت سے کیسے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ نئے تصورات ہیں جن پر ہمارے دانشوروں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں گو عقل اور منطق کی سطح پر گفتگو کا رواج کم ہو رہا ہے پھر بھی یہ سوال اہم ہے کہ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک یا پسماندہ ممالک میں پارلیمانی جمہوریت کو ناکام کیوں سمجھا جانے لگا ہے۔ کیا اس کی ذمہ داری اشرافیہ پر عاید کی جا سکتی ہے جو ہر حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتی ہے لیکن انتخابی عمل میں شریک نہیں ہوتی۔ کیا اس پر سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے جو پانچ سال بعد گلی محلے میں اپنے ایجنٹوں اور روپے سے بھرے تھیلے لے کر نمودار ہوتے ہیں۔ انتخابی دفتر قائم کرتے ہیں‘ لنگر جاری کرتے ہیں اور پھر پانچ سال تک غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک سوال ان افلاس زدہ افراد سے بھی کیا جا سکتا ہے جو ہفتہ دس دن کے راشن کے عوض اپنا ووٹ فروخت کر دیتے ہیں۔ جمہوریت کا عمل انتخاب کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ شہری ذمہ دار عہدوں پر کام کرنے کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ 17ویں صدی سے انتخابی عمل جمہوریت کا جزو لاینفک ہے۔ دوسروں کی بات چھوڑیں پاکستان میں انتخابی عمل کے ذریعے ہم قانون بنانے والے افراد کا انتخاب کرتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا تقرر بالواسطہ ہمارے ہاتھوں ہوتا ہے‘ انتظامیہ کو ہم چنتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کی تشکیل اور ذمہ داریاں ہمارے ووٹ سے طے ہوتی ہیں۔ انتخابی عمل سے بار کونسلز کے عہدیدار چنے جاتے ہیں۔ ادیب اور شاعروں کی انجمنیں اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں‘ چیمبر آف کامرس‘ تاجر تنظیمیں اور بہت سے کلب اسی طریقہ کار سے کام کرتے ہیں۔ گویا ہمارے پوے سماج میں مختلف سطح پر کہیں نہ کہیں ہم اپنا ووٹ کسی کے حق اور کسی کی مخالفت میں ڈالتے ہیں۔ مثبت نتیجہ اس لئے نہیں ملا کہ ہم نے افراد کو ووٹ دیا کبھی کسی منشور‘ ایجنڈے اور پروگرام کو ووٹ دیتے تو جمہوریت کی شکل مختلف ہوتی۔ مجھے متبادل ووٹنگ سسٹم میں دلچسپی ہے۔ میرے لئے متناسب نمائندگی‘ ڈائریکٹ ڈیمو کریسی‘ ریفرنڈم اور ووٹنگ سسٹم میں ایجادات کے استعمال کے معاملات اہم ہیں۔ کئی برسوں سے سن رہے ہیں کہ پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم لانے کی تیاریاں ہو رہی ہے‘ پھر سنتے ہیں یہ نظام غلطیوں سے پاک نہیں۔ ایسی بات وہ حلقے کر رہے ہیں جو ووٹنگ کے موجودہ دھاندلی زدہ نظام کو اپنے لئے مفید سمجھتے ہیں۔ ای ووٹنگ سے ووٹ دینے کا عمل تیز رفتاری اور زیادہ بڑے ٹرن آئوٹ سے ہو سکتا ہے‘ اس میں غلطیوں کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ ای ووٹنگ سے شفافیت اور نظام کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ای ووٹنگ سے عام آدمی کی جمہوری عمل میں شرکت کا حجم بڑھ جاتا ہے اس لئے عام آدمی کو اختیار سے محروم رکھنے والی قوتیں فرسودہ نظام کے حق میں رہتی ہیں۔ ہماری جمہوریت سماج کے کچھ بہت دولت مند خاندانوں اور ان کی دولت و اختیار سے فائدہ اٹھانے والے چند افراد کے گٹھ جوڑ کا نام ہے۔ یہ وہ نقص ہے جو جمہوریت کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچنے دیتا۔ جمہوریت کی کامیابی اسی صورت ہو گی جب معاشرہ بدعنوانی سے پاک ہو گا اور قومی ادارے کرپشن سے محفوظ ہوں۔ ایسا نہ ہو تو کیا جمہوریت کیا آمریت۔