جمہوری سیاست، کاروباری دنیا اور سفید پوش جرائم کا دھندا، ان تینوں کا آپس میں تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا سیاسی پارٹیوں کا وجود اور ان کے اخراجات کے نام پر ''پارٹی فنڈ'' کا گھناؤنا گھن چکر۔ امیر ترین ممالک سے لے کر غریب اور قحط زدہ ممالک تک، سب اس جمہوری چکاچوند پر بیش بہا سرمایہ لٹاتے ہیں۔ پورے ملک میں پارٹیوں کے دفاتر قائم ہوتے ہیں جن کے مسلسل اخراجات ہوتے ہیں، لیڈران کرام ملک بھر میں دورے کرتے ہیں، سارا سال چھوٹے موٹے جلسے، کارنر میٹنگیں، عید ملن پارٹیاں، افطاریاں وغیرہ ہوتی رہتی ہیں۔ بڑے بڑے جلسے بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ اشتہارات، بل بورڈز، بینرز اور میڈیا میں مہم جوئی بھی چلتی رہتی ہے۔ جلوس نکالنا ہوتے ہیں، دھرنے دینا ہوتے ہیں، سوشل میڈیا کی ٹیم کے اخراجات اٹھانا ہوتے ہیں اور پھر بالآخر الیکشن کا دن آجاتا ہے۔ اس الیکشن سے تقریبا دو ماہ اور بعض ممالک میں تو چھ ماہ قبل الیکشن مہم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ مہم کسی بڑے عالمی اولمپکس سے کم نہیں ہوتی، اس پر جس قدر سرمایہ خرچ ہوتا ہے وہ شاید ہی دنیا کے کسی بڑے ایونٹ پر خرچ ہوتا ہو۔ یہ صرف الیکشن پر اٹھنے والا خرچہ ہے جو پانچ سال کے بعد ہوتے ہیں۔باقی پارٹی اخراجات علیحدہ ہیں۔ امریکہ میں اندازا ہر الیکشن پر چھ ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ان اخراجات میں وہ تمام اخراجات شامل نہیں ہیں جو چھوٹے چھوٹے گروپ آپس میں پارٹی کے لیے کرتے ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی جیسے بڑے ممالک کے اخراجات بھی امریکہ سے کسی طور کم نہیں ہیں یہاں تک برازیل جیسا ترقی پذیر ملک بھی امریکہ کے 25 ڈالر فی ووٹر کے مقابلے میں 20 ڈالر فی ووٹر الیکشن پر خرچ ضرور کرتا ہے۔ الیکشن کے حوالے سے دنیا بھر کے ممالک دو گروہوں میں تقسیم ہیں، ایک وہ جو اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں کرتے جیسے آسٹریلیا، ڈنمارک، ہالینڈ، ناروے، سپین اور ترکی وغیرہ جبکہ کینیڈا، جاپان، فرانس، چلی اور بیلجیئم وغیرہ نے اخراجات کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے۔ یہ حد مقرر کرنا بھی ایک مذاق ہے کیونکہ ہر ملک کی یہ تمام پارٹیاں اپنے زیر سایہ چند گروپ بنوا لیتی ہیں جنہیں ''خیرخواہ گروپ'' کہا جاتا ہے وہ بہت سے اخراجات اٹھاتے رہتے ہیں۔بالکل ویسے ہی، جیسے ہمارے ہاں سارے اخراجات اشتہارات کے نیچے ''منجانب'' لکھ کر حساب بے باق کر دیا جاتا ہے اور امیدوار کہتا ہے کہ میرے تو وہی چند لاکھ روپے ہی خرچ ہوئے ہیں۔باقی خرچہ تو یار دوستوں نے کیا ہے۔ اخراجات پر کسی نہ کسی ملک میں تھوڑی بہت پابندی لاگو ہے لیکن تمام جمہوری ممالک میں پارٹی فنڈنگ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔آپ جتنا،جس سے چاہیں اکٹھا کرلیں۔ پارٹی فنڈنگ وہ ہتھیار ہے جس سے پوری پارٹی کو ہانکا جاتا ہے۔ پوری کی پوری سیاسی پارٹی کسی ایک بڑے کاروباری گروہ یا کئی کاروباری گروہوں کی ملکیت بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ ہے وہ اساس اوربنیاد جس پر دنیا کے ہر جمہوری نظام کی عمارت کھڑی ہے۔ دنیا کا کوئی جمہوری نظام ایسا نہیں جس میں سیاسی پارٹیاں نہ ہوں۔ آج آپ غیر جماعتی جمہوری الیکشنوں کی بات کریں آپ کو آمریت یا ڈکٹیٹر شپ کا ایجنٹ قرار دے دیا جائے گا۔ایک سیاسی پارٹی اپنی تنظیم کی وجہ سے ایک ایسا گروہ بن جاتی ہے جو منظم ہوتی ہے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرمائے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی بڑے ڈونر کی بھی ضرورت پڑے گی۔ یوں دو ایجنڈوں کا ایک خفیہ اور غیرمقدس رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ ایک کاروباری دنیا یعنی کارپوریٹ کلچر کا ایجنڈا اور دوسرا کسی بھی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا۔ ان دونوں میں غالب اس کا ایجنڈا اور مفاد آتا ہے جو سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ تمام فیصلے اس کی مرضی ہی نہیں بلکہ ہدایت و حکم کے زیراثر کیے جاتے ہیں اور یوں ہر بڑی سے بڑی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا کاروباری دنیا کے سامنے سرِتسلیم خم کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر بڑا کاروباری ادارہ اپنے ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کی بھی تمام سیاسی پارٹیوں کو سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ اس سرمایہ کاری کو '' پارٹی فنڈنگ'' کہتے ہیں۔ اپنے ملک کی پارٹیوں کو اس لئے فنڈ دیا جاتا ہے تاکہ اسمبلیوں میں اپنی مرضی کے قوانین پاس کروائے جائیں اور اپنی سہولت کے مطابق ٹیکسوں کا نظام وضع کروایا جائے۔ جبکہ دوسرے ممالک میں سے ایسے ممالک کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں انکے مال کی کھپت ہوتی ہے۔وہاں بھی قانون سازی پر اثر انداز ہونے کے لئے فنڈنگ ہوتی ہے۔ اس سارے نظام کو ایک مکارانہ طریقے سے وضع کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز جرمنی میں ہوا۔ وہاں بڑے بڑے کاروباری اداروں نے ایک ٹرسٹ بنالیا جس کا مقصد الیکشن کے لیے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر فنڈ فراہم کرنا تھا۔1966 ء میں اس ماڈل کو بھارت میں ٹاٹا گروپ نے شروع کیا اور پھر 2009 ء کے الیکشنوں میں 36 بڑے کارپوریٹ گروپوں نے ایک کروڑ فی گروپ جمع کیا اور اس میں سے تمام سیاسی پارٹیوں کو حصہ بقدر جثہ عطا کیا گیا بلکہ بعض کو جثے سے بھی زیادہ نوازا گیا۔ ایسے ٹرسٹ کا کمال یہ ہے کہ یہاں سرمایہ فراہم کرنے والے کا نام کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ ٹرسٹ اپنے اکاؤنٹ آڈٹ کرواتا ہے اور پارٹیوں کو فنڈ فراہم کرکے ایک سمت خاموش ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ایسا ماڈل تھا جس کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی اور یوں امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ممالک نے بھی اسی طریق کار کو اپنالیا۔ اس وقت امریکا میں 527 ایسے کاروباری ادارے ہیں جو الیکشن مہم جوئی کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک گروپ بنایا ہوا ہے جسے پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (political action committee) کہتے ہیں۔ ایسے گروپ اس وقت بنانے شروع کئے گئے جب کانگریس میں ممبران نے ایک دوسرے،کو یہ طعنے دینے شروع کیے گئے کہ تم فلاں کاروباری شخصیت سے پیسے لیتے ہو اور تم فلاں سے۔ یوں جولائی 1943 ء میں فلپ مری (Fhilip Murry) نے پہلا پولیٹیکل ایکشن گروپ بنایا۔ اس گروپ نے الیکشن میں سرمایہ لگایا اور پھر کانگریس سے قوانین منظور کروائے کہ ڈونر کے نام ظاہر نہیں کیے جا سکیں گے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں پارٹیوں کو فنڈ فراہم کرنے کے لئے اسی طرح کی تنظیمیں بنانے اور گروپ تشکیل دینے کے لیے قوانین بنائے گئے، جن کے تحت ایسی کسی بھی قسم کی رقوم پر ٹیکسوں کی چھوٹ دی جانے لگی۔ اس تمام طریق کار کو باقاعدہ ایک کاروباری زبان دی گئی۔ پارٹی فنڈنگ کو سرمایہ کاری (investment) کہا گیا۔ ووٹر کو صارف (consumer) اور سیاسی رہنماؤں کو Public Service Provider یعنی عوام خدمات فراہم کرنے والے کہا گیا۔ ان ٹرسٹوں کا کمال یہ ہے کہ انکی وجہ سے تمام سیاسی پارٹیوں کو سرمائے کی فراہمی میں ایک تسلسل قائم رہتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی کمی نہیں آنے دی جاتی۔ٹرسٹ، یہ دنیا بھر میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے این جی اوز کو بھی سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔یہ این جی اوز جو ملک میں جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں۔ سیاسی تربیت کرواتی ہیں۔ سینمار اور ورکشاپ اور جلوسوں کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہ ہے وہ سرمایہ کاری جس کے گرد دنیا کے ہر جمہوری نظام کا پہیہ گھومتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی ان ڈونرز کے مفادات کا احترام کرتی ہے۔ ایسے ٹرسٹ ملکوں کے اندر بھی بنائے جاتے ہیں اور بیرون ملک عالمی سطح پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت الیکشن آجائیں، بڑے جلسے کرنا ہوں، دھرنے کرنے ہوں، تحریک چلانی ہو، لیڈروں نے جلاوطنی کاٹنی ہو، کبھی بھی سرمائے کی کمی نہیں ہوتی۔ اسی سرمایہ کاری سے پوری کی پوری پارٹیاں یرغمال بنائی جاتی ہیں اور یوں پوری کی پوری پارلیمنٹ، حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر بھی ایسا ٹیکس نافذ نہیں کر سکتیں جو ڈونرز کے مفاد کے خلاف ہو۔آج اگر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے اخراجات کا سرسری تخمینہ ہی لگایا جائے تو شاید کوئی بھی سیاسی پارٹی ان اخراجات کے جائز ذرائع آمدن نہ بتاسکے ۔ پارٹی فنڈنگ وہ مقدس صندوق ہے جسے کوئی بھی کھولنے نہ دے گا۔اگر اس صندوق کو کھولا گیا تو اس کے اندرچھپے ایسے سانپ اور بچھو نکلیں گے جو اپنے ہی مالکوں کو کاٹ کھائیں گے۔