برطانیہ کے شہر پیٹربراء کے ایک قبرستان میں گزشتہ سال فروری کے مہینے میں ایک دوست اپنی جواں سال بیٹی کی میت قبر میں اْتارنے کے لئے قبر کے اندر کھڑا تھا جبکہ مرحومہ لڑکی کا تقریبا پچاسی سالہ نانا قبر والی جگہ پر کھڑا ضروری ہدایات دے رہا تھا۔ مثال کے طور پر منہ ٹھیک طرح قبلہ رْخ کریں ،پہلے مٹی کون ڈالے گا وغیرہ وغیرہ۔ تدفین کے یہ مناظر خاندان اور کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کے لئے بڑے ہی دردناک تھے جبکہ ارد گرد ان مسلمانوں کی قبریں بھی تازہ تازہ نظر آرہی تھیں جن کی عمریں 30 سے لے کر 55 سال تک تھیں جو کرونا کی وجہ سے گزشتہ دو تین سالوں میں موت کے مْنہ میں چلے گئے تھے برطانیہ میں ہر شہر میں مسلمانوں کی قبروں کے لئے عام قبرستانوں میںعلیحدہ جگہ مختص ہوتی ہے۔ اس موقع پر میرے سامنے ایک طرف 85 سالہ بوڑھے بزرگ نانا کی نواسی کی تدفین پر تڑپ اور قبر میں کھڑے باپ کا سین انتہائی اذیت ناک تھا تو دوسری طرف ارد گرد نئی نئی تازہ تازہ قبریں انتہائی تکلیف دہ تھیں جبکہ تیسری طرف ایسے میں مجھے شدید غصہ اس بات پر آ رہا تھا کہ قبرستان پر اسی میت کی تدفین کی غرض سے آنے والے تین درجن سے زائد افراد خوش گپیوں میں مصروف تھے بلکہ ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر مل بھی رہے تھے جن میں علاقے کے بعض معززین شامل تھے۔ موبائل کی گھنٹیاں زور و شور سے بج رہی تھیں۔ بے حسی کا یہ عالم تھا کہ تدفین پر کھڑے لوگ قبرستان سے کاروبار زندگی بھی چلا رہے تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے میں خدا نخواستہ صرف پیٹربراء کے پاکستانی مسلمانوں کو ہی ہدف تنقید نہیں بنانا چاہتا میرے اپنے شہروں لوٹن وٹفورڈ یا برطانیہ میں جہاں بھی قبرستانوں میں جانا ہوتا ہے ہمارے لوگوں کا روّیہ بالکل ایسے ہی ہوتا ہے۔ میت کی تدفین کے موقع پر ہمارا اس طرح کا طرزعمل شرمناک ہے۔ حالت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی غرض سے آنے والے فرض نمازیں مساجد کے اندر ادا کر رہے ہوتے ہیں تو لوگ باہر کھڑے رہتے ہیں ،خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں اور فرض نماز چھوڑ کر نماز جنازہ میں شرکت کرنے کا انتظار کرتے ہیں جونہی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے تو مساجد کا احترام ملحوظ خاطر نہیں رکھتے اور اتنا شور مچاتے ہیں کہ مساجد مچھلی بازار بن جاتی ہیں۔ اب یہ عام رواج شروع ہوگیا ہے کہ نماز جنازہ ادا کرنے سے پہلے یا بعد جبکہ میت کی ابھی تدفین بھی نہیں ہوتی تو گھر والوں کو جنازے پر آنے والوں کو کھانا کھلانا پڑتا ہے اور ایک طرف لاش پڑی ہوتی ہے تو دوسری جانب دستر خوانوں پر لوگ دبا دبا کر گوشت سے روٹیاں اور چاول کھا رہے ہوتے ہیں۔ مساجد اور گھروں میں تعزیت کے لئے وقت بے وقت آنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے جس کے گھر کوئی مر جائے اس کی فیملیز کا آرام کاروبار زندگی سب کچھ ٹھپ ہوجاتا ہے چونکہ تعزیت کے لئے آنے والے اس کو سوشل ایونٹ بنا لیتے ہیں۔ پسماندگان کے لئے فوت ہونے والے کا غم اپنی جگہ جب کہ تعزیت کرنے والے انکی زندگی ہی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ پاکستان میں تو مرنے والوں کے لواحقین مقروض تک ہوجاتے ہیں ۔ہر کلمہ گو مسلمان کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ دنیا سے جانے کے بعد بھی اس کی نیکیوں میں اضافے کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری رہے تاکہ وہ آخرت میں بلندی درجات تک پہنچ سکے۔ انسان کے فوت ہونے کے بعد اس کے ذاتی اعمال کا سلسلہ تو ختم ہوجاتا ہے لیکن کچھ اعمال اس کے مرنے کے بعد اس کو فائدہ دیتے ہیں، ان میں ایک تو نیک اعمال ہیں جو اس کی زندگی کے بعد بھی اس کو فائدہ دیتے ہیں دوسرے وہ اعمال ہیں جو لواحقین میت کے ایصالِ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو تین اعمال کے سوا اس کے تمام اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے دوسروں کے لئے نفح اٹھایا جاتا رہے یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہے۔ عام مشاہدے میں آیا ہے کہ جب کوئی فوت ہوجاتا ہے تو میت کا کفن دفن کرنے والے فیونرل سروسز کے بعض ادارے بھی اس کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر چلاتے ہیں جو سرا سر زیادتی اور قابل افسوس عمل ہے۔ رواں سال فروری کی 5 تاریخ کو میں اپنے دوست مبین چوہدری کی میت کے ساتھ لندن سے لاہور میں پہنچا تو ائیرپورٹ سے لے کر شہر میں اور اس کے گرد و نواح لاہور میں نئی نئی ہاوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں لیکن جب قبرستان کی حالت کو دیکھا تو دل خون کے آنسو رو رہا تھا جگہ کی کمی کی وجہ سے قبروں کے اوپر قبریں بن رہی ہیں۔ قبریں ٹوٹی پھوٹی ہیں ۔کوے ، چیلیں اور جانور قبرستان پر گھوم رہے ہیں۔ راستہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قبرستان میں قبروں کو پائوں تلے روند رہے ہیں اور چلتے جارہے ہیں، قبرستان کی صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں۔ برطانیہ و یورپ میں مقامی حکومتیں قبرستانوں کا انتظام و انصرام خود کرتی ہیں باقاعدہ ایک رینجر فورس ہوتی ہے جو قبریں تیار کرتی ہے قبرستان میں مدفون ہونے والوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے قبرستان کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بحال کرنے کے لئے سٹاف ہوتا ہے صدیوں پہلے مرنے والوں کی قبر کا ریکارڈ اور لوکیشن کو ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ ہم کسطرح کے مسلمان ہیں نہ زندوں کو زندگی میں انصاف دے سکتے ہیں اور نہ مْردوں کو محفوظ جگہ اور باعزت دفنا سکتے ہیں زرہ سوچیئے ایک دن سب نے مر جانا ہے۔