گورنمنٹ کی حالیہ ’’پاسپورٹ ایمنسٹی سکیم‘‘ سے سب سے زیادہ ہمارے وہ علمائ/خطباء استفادہ کر رہے ہیں جو مختلف سرکاری محکموں میں ’’سرکاری خطیب‘‘ کے طور پر فائز ہیں۔ وگرنہ ہمارا یہ ’’سرکاری طبقہ علماء و خطبا‘‘ بہت سے ملازمانہ قواعد و ضوابط بالخصوص پاسپورٹ میں’’گورنمنٹ سرونٹ‘‘ کے اندراج سمیت سرکاری امور اور ضروریات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا‘ سرکاری ملازمت کے باوجود ان کے پاسپورٹ پرائیویٹ ہی ہوتے اور اسی پر وہ اکثر محکمانہ این، او، سی اور’’ رخصت بیرون ملک‘‘ کے بغیر ہی ،بیرونی ممالک کے تبلیغی اور روحانی دورے بھگتا لیتے ہیں‘ اگرچہ وہ حق ‘ حقیقت اور ان حقائق کے بلاوجہ چھپانے اور Concealکرنے کو ناجائز بلکہ بعض اوقات حرام بھی سمجھتے ہیں۔ تاہم امر واقعہ یہی ہے ۔۔۔۔قبل ازیں اس سکیم کی آخری تاریخ 23جولائی تھی۔ جس کے سبب ملک کی سب سے بڑی'' ''Mosque Establishmentپر علماء اوقاف کا بڑا دبائو رہا۔ حکومت کی طرف سے مہیا کردہ مزید مہلت کے سبب گزشتہ تساہل اور کوتاہیوں کا ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ ویسے ہمارے ’’نئے ماڈل کے سرکاری آئمہ /خطبا‘‘ کی بے نیازیاں اور سہل انگاریاں تو اس سے بھی متجاوز ہیں‘ ان کو مسجد کی آبادی اور آباد کاری‘ خوش انتظامی اور اس کی علمی مرکزیت سے اتنی دلچسپی ہی نہیں ہے’ اول تو وہ ازخود نماز پڑھانے کے لئے دستیاب ہی نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں تو نماز کے اختتام پر اپنے مقتدیوں سے بھی ذرا پہلے۔۔۔۔ مسجد سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسجد کے درودیوار سے وہ اس طرح خود کو مانوس نہیں کر سکے۔ جس طرح ہمارے اسلاف جو مختلف معاشی، سماجی اور سیاسی دبائو کے باوجود اپنی شخصیت کو بے داغ اور کردار کو اجلا رکھتے‘ وہ اپنے اداروں کی مرکزیت کے خواہاں رہتے‘ حالات کی ناہمواری اور غیر موزونیت کے باوجود اپنی مساجد اور مدارس کو دارالعلم اور دارالقرآن بنانے کی طلب اور تڑپ میں دن رات ایک کر دیتے۔ ہماری نسل نو شاید زینت القرا قاری غلام رسول کے نام سے اتنی آشنا نہ ہو‘ مگر جو آشنا اور شناسا ہیں‘ شاید وہ بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہ ہوں کہ موصوف بھی سرکاری خطیب تھے، مگر انہوں نے خود پر کبھی دربار یا سرکار کی چھاپ نہ لگنے دی۔ قاری صاحب ’’زینت القرا‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے اور خوب ہوئے‘ قرآن پڑھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے دلوں پر نازل ہو رہا ہے۔80ء کی دہائی میں لاہور کے ٹائون ہال میں ایک کانفرنس کے دوران صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے صدارتی خطبہ میں کوئی ایسی بات کہہ دی جو قاری صاحب کے خیال میں درست نہ تھی۔ وہ پہلی صف میں بیٹھے ہوئے تھے، اپنی سیٹ پر کھڑے ہوئے اور صاحب صدر کی ان کی گفتگو کے دوران ہی تصحیح فرما دی۔ لاہور صدر میں واقع نورانی مسجد ان کی ذات کی بدولت تجوید و قرآن کے بڑے مرکز کے طور پر معتبر رہی ،گو کہ وہ ادارہ اوقاف کے زیر انتظام تھا‘ مگر اس میں برکت اور مرکزیت قاری صاحب کے وجود کے سبب تھی۔ ایسے بیشمار علماء اور صاحبان فکر وفن ہیںجن کی مساعی جمیلہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔ جو نانِ جویں کھا کر قوت حیدری کا مظاہرہ کرتے رہے ۔مفتی اعظم حضرت محمد حسین نعیمیؒ کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ وہ بھی چوک دالگراں میں اوقاف کی مسجد کے خطیب تھے ،یہی پر جامعہ نعیمیہ کا آغاز ہوا۔ مسند تدریس بچھی اور طلبہ ہجوم کر آئے۔ انہوں نے یہاں کے محراب و منبر کو مومنانہ بصیرت سے سنبھالا اور پھر بتدریج گڑھی شاہو میں جامعہ نعیمیہ کے لئے عظیم الشان عمارت کی تکمیل فرمائی۔مارشل لا کے زمانے میں ’’ ملتان کی عظیم الشان سنی کانفرنس‘‘جو 1979ء میں قاسم باغ میں منعقد ہوئی ، میں علما کے خطاب نے تہلکہ مچا دیا تھا ایسے حق پرست علما کی فہرست بہت طویل ،جبکہ کام کا دائرہ مختصر ۔۔۔۔بہر حال امتدادِ زمانہ نے بہت کچھ بدل دیا ہے ،ایک وقت تھا کہ لاہور کی کئی مساجد اپنے خطباء کی شعلہ نوائی اور علمی بصیرت کے سبب روشن اور معروف تھیں‘ لوگ دور دراز سے ان شخصیات کے بیان و کلام سے استفادہ کے لئے آتے، ان میں سے کئی دینی مراکز سرکاری تحویل میں بھی روشنی اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ازخود ایوانِ اوقاف سے متصل دربار حضرت شاہ چراغؒ کی جامع مسجد میں علامہ علائوالدین صدیقی جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ،خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے، اس جگہ کی مرکزیت کا ایک سبب ان کے وقیع خطبات بھی تھے۔ سرکاری اور غیر سرکاری خطباء کی تخصیص نہیں، اب ہمارے خطیبان شہر اور واعظین خطہ، بیان کی حلاوت اور علم کی چاشنی سے محروم اور ان کے خطبے قلب و جگر کو ایمانی حرارت عطا کرنے سے عاری ہیں۔ ان کے ہاں اب رومی اور جامی کے اشعار سے بہت زیادہ شناسائی نظر نہیں آتی۔ اس بحران میں بھی چند ایک مقامات ایسے ہیں جہاں لوگ خطبہ جمعہ کے لئے خطیب کے منبر پر تشریف فرما ہونے سے پہلے صف بستہ ہو جاتے ہیں، وگرنہ اکثر مقامات پر مقتدی جمعے کی دوسری اذان پر ہی مسجد میں جاتے ہیں جو کہ بہرحال ایک المیہ ہے۔ اس سلسلے میںہمارے خطبا کو بطور خاص جمعہ کے اوقات کی پابندی کرنی چاہیے، مزید یہ کہ اپنے خطبہ جمعہ کے موضوع کا تعین کرتے ہوئے بہترین تیاری کے ساتھ سامعین کے روبرو پیش ہونا چاہیے۔ موجودہ دور میں مختصر وقت میں جامع بات کہنے کا سلیقہ اور قرینہ پیدا کرنا ازحد ضروری ہے۔ خطیب صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے سامعین پر اپنا موضوع اور مدعا واضح کریں اور پھر جاندار دلائل سے اپنی گفتگو کو آراستہ اور مزین کریں، بے جا مناظروں سے احتراز کریں اور محراب و منبر ہی کواپنے لئے وجہ اعزاز اور افتخار بنائیں۔ امام غزالیؒ اپنی معروف کتاب احیا العلوم کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں ،کہ راستے کے راہنما وہ علماء ہیں جو انبیا ء کے وارث ہیں اور ان سے اب زمانہ خالی ہو چکا ہے۔ اب تو محض رسمی لوگ رہ گئے ہیں ان میں سے بھی اکثر پر شیطان غالب آ چکا ہے اور سرکشی نے ان کو گمراہ کر دیاہے ، ان میں سے ہر ایک فوری فائدے کے حصول میں مصروف ہے، چنانچہ وہ نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی قرار دیتے ہیں۔ امام صاحب اپنی اس شہرہ آفاق کتاب کے سبب تالیف کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ’’علم ناپید ہو گیاہے اور روئے زمین سے ہدایت اور روشنی کے نشان مٹ گئے ہیں ،لوگ یا تو سرکاری قربت کے لئے علم حاصل کرتے ہیں، جہاں وہ اپنے ’’فتاویٰ‘‘ کے ذریعے پہنچیں،یا بحث و مناظر ہ کے لئے، تاکہ مخالفین کا منہ بند کر دیں یا خوبصورت اسلوب بیان کے لئے، تاکہ ان کے حسین کلام سے لوگ مبہوت ہو جائیں۔ جہاں تک آخرت کے راستے اور صالحین کے طریقے کا تعلق ہے ،جس کو فقہ ‘ حکمت‘ علم‘ روشنی اور نور قرار دیا گیا ،وہ مخلوق کے درمیان سے لپیٹ دیا گیا ہے ۔امام غزالیؒ ‘ حضرت داتا ؒصاحب کے ہم عصر تھے۔ انہوں نے ایک ہزار سال پہلے کا نقشہ کھینچا ہے۔ آج آ جائیں تو پتہ نہیں کیا فرمائیں۔